مولانا فضل الرحمن کے تین آپشن
3 نومبر 2019مولانا فضل الرحمن کی جانب سے حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن اتوار کی شام ختم ہو رہی ہے۔ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اسلام آباد میں رہبر کمیٹی کی مشاورت جاری ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے توقع کے عین مطابق گزشتہ روز واضح کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کے استعفے کے مطالبے پر کوئی بات نہیں ہوگی۔
بظاہر مولانا کے پاس اب تین آپشن ہیں: آگے بڑھیں، پیچھے ہٹیں یا پھر فی الحال کچھ دن کے لیے وہیں رہیں جہاں ہیں۔
مولانا اور ان کے کارکنوں میں آگے بڑھنے کی سکت ہے لیکن اس میں تصادم کا قوی امکان ہے۔ پی ٹی آئی حکومت واضح کر چکی ہے کہ مجمے کو کسی صورت ریڈ زون کی طرف جانے نہیں دیا جائے گا۔
حکومت نے مظاہرین کو ایچ نائن کی جلسہ گاہ تک محدود رکھنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے اور وزیر داخلہ ڈنڈے کے زور پر یہ یقینی بنائیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی بھی ڈی چوک کی طرف پیش قدمی اور کسی لمبے دھرنے کے حق میں نظر نہیں آتیں۔
مولانا پاکستانی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی مانے جاتے ہیں۔ حالات و واقعات دیکھ کر چلتے ہیں۔ گو کہ وہ طالبان کے بڑے ہمدرد ہیں لیکن اسلام آباد کسی 'خود کش مشن‘ پر نہیں آئے۔
اس عمران مخالف آزادی مارچ میں مولانا نے پاکستان سے اتنے لوگ اکھٹے کر کے انہوں نے ایک بار پھر اپنی اہمیت اور اپنا سیاسی وزن منوا لیا ہے۔
لیکن یہاں سے اگر وہ کچھ حاصل کیے بغیر پیچھے ہٹتے ہیں، تو اسے پی ٹی آئی کی حکومت اپنی فتح قرار دے گی۔ مولانا اپنے لوگوں کو سمجھا لیں گے کہ سیاست میں کبھی آگے بڑھنے کے لیے دو قدم پیچھے بھی لینے پڑتے ہیں۔
لیکن ایسے میں اگر وہ تیسرے آپشن کی طرف جاتے ہیں اور فی الحال وہیں ٹک کر بیٹھ جاتے ہیں تو اس سے انہیں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے اور فریقین کے ساتھ مذاکرات کا مزید وقت مل جائے گا۔ اس اقدام کی حکومت بھی مخالفت نہیں کرے گی۔
حکومت کی کوشش ہو گی کہ مولانا کو وہیں تک محدود رکھ کر تھکائے، ان پر دباؤ بڑھائے اور نئے کیسز ڈال دے۔ ان سے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو توڑ کر انہیں تنہا کرے اور اگر فوج کے اندر کہیں سے مولانا کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے، تو اس کا توڑ نکالے۔
مولانا پر اس وقت ہر طرف سے دباؤ ہے۔ وردی والے ہوں یا سولین قیادت، سب کی اپنی اپنی خواہشات ہیں۔ لیکن آخر میں مولانا نے بھی فیصلہ اپنے سیاسی مفاد میں کرنا ہے۔