موٹاپا: زندگی اورموت دونوں صورتوں میں ایک المیہ
22 مئی 2012واشنگٹن میں حال ہی میں منعقد ہونے والی ’نیشنل اوبیسیٹی پریوینشن کانفرنس‘ میں پیش کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ 2030ء تک امریکا میں فربہ پن کے شکار بالغ افراد کی شرح 42 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت موٹاپے کے شکار بالغ امریکی شہریوں کی شرح 36 فیصد ہے۔
ان اندازوں کے مطابق ایسے فربہ افراد جن کا وزن کسی صحت مند فرد کے وزن سے ایک سو پاؤنڈ یا اس سے بھی زائد ہو، ان کی شرح 4.9 فیصد سے بڑھ کر 11 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ تاہم امریکی محققین نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا ہے کہ نئے اعداد و شمار اُن اندازوں کے مقابلے میں کم خطرناک ہیں جو چند سال پہلے لگائے گئے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے تک طبی ماہرین کا خیال تھا کہ 2030ء تک امریکا میں موٹاپے کے شکار افراد کی شرح 51 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ نارتھ کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی کے ایک ماہر ایرک فنکل اشٹائن کے بقول یہ کہنا مشکل ہے کہ موٹاپے کی طرف مائل افراد کی تعداد میں سست رفتاری کی وجہ کیا ہے۔ ان کے مطابق یا تو موٹاپے کے خلاف حکومتی مہم یا پھر صحت سے متعلق عوامی شعور میں اضافہ اس کی وجہ بنا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق امریکہ میں فاسٹ فوڈ ریستورانوں کی تعداد میں اضافہ صحت سے متعلق مسائل کا ایک بڑا سبب ہے۔
واشنگٹن کی اس کانفرنس میں عوام میں موٹاپے کے اقتصادی اثرات پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق 2030ء تک موٹاپے کے باعث پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات پر 550 بلین ڈالر تک کے اخراجات آئیں گے۔ محققین کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ لاگت ذیابیطس اور امراض قلب کے مریضوں کے علاج پر آئے گی۔
امریکا میں جہاں ایک طرف عوام میں موٹاپے کے باعث بیماریوں اور ان کے صحت مند زندگی پر منفی اثرات کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے وہیں پر موٹاپے کے شکار افراد کی موت ایک نئے کاروباری پہلو کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اب وہاں نارمل سے زیادہ وزنی لاشوں کے لیے مضبوط تابوت بننا شروع ہو گئے ہیں، ایسے تابوت جن میں اسٹیل کا فریم نصب ہوتا ہے اور جو 200 کلو گرام تک وزنی میت کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں۔
km / mm / dpa