مٹی کے بغیر کاشتکاری، مستقبل کے انسان کے لیے مفید ہے؟
زمین کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے کھیتوں میں کاشتکاری کے عمل کو مشکل سے مشکل تر کر دیا ہے۔ ابھی سے مزید خوراک کے حصول کی جدوجہد شروع ہو گئی ہے۔
خوراک کی عدم فراہمی اور زمین کے بغیر کاشتکاری
سن 2050 تک زمین کی آبادی پچاس ارب تک ہو سکتی ہے اور خوراک کی فراہمی ایک مشکل چیلنج ہو گا۔ زمین کے بعض حصے شدید بارشوں سے زیادہ نم زدہ ہیں جب کہ کچھ اور علاقے خشک تر ہو چکے ہیں۔ اس باعث کاشتکاری میں زیادہ اختراعی انداز اپنانا اہم ہو چکا ہے۔ ایسے میں زمین کی مٹی کے بغیر اختراعی کاشتکاری کو ایک حل خیال کیا گیا ہے۔ ریت یا پتھروں میں فصل بونے کو ہائیڈروپونکس کہتے ہیں۔
ہوا میں پودے اگانے کا سلسلہ
کم جگہ میں فصل کاشت کر کے زیادہ پیداوار حاصل کرنا بھی اختراعی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اسٹار ٹریک فلم کا کوئی منظر محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ قدیمی دور میں انسان ایسا کرتا رہا ہے۔ ایزٹک تہذیب کے لوگ معلق کھیتوں میں کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ ہائیڈروپونکس کا ایک مطلب زمین کے بغیر کاشتکاری بھی لیا جاتا ہے۔
پیداوار میں بے پناہ اضافہ
زمینی مٹی کے بغیر کاشتکاری کسی حد تک مصنوعی انداز میں کی جاتی ہے اور اس کے لیے غذائیت کو اہمیت حاصل ہے۔ مختلف طریقوں میں غذائی محلول کا استعمال کر کے جڑیں پھیلانے کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں غذائی محلول کا اسپرے بھی شامل ہے۔ ایسی کاشتکاری میں مصنوعی انداز میں حرارت، روشنی اور دوسرے آلات کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پودا جلد تیار ہو جائے اور پیداوار بھی زیادہ دے۔
مٹی کے بغیر کاشتکاری کا مؤثر انداز
اس طریقہٴ کاشتکاری یعنی ہائیڈروپونکس میں پانی کا انتہائی قلیل استعمال کیا جاتا ہے۔ روایتی کاشکاری سے دس فیصد کم پانی استعمال کر کے زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر خشم موسم میں کارگر ہے لیکن غذائیت یقینی طور پر فصل میں زیادہ موجود ہے۔ اسی طرح کیمیکل کھاد کا استعمال بھی کم ہوتا ہے۔ کیڑے مار ادویات نہ ہونے کے برابر استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ زمینی مٹی موجود نہیں ہے۔
کاشتکاری کا عمودی انداز
ہائیڈروپونکس میں پودے عمودی طور پر لگائے جاتے ہیں تا کہ وہ اوپر کی جانب بڑھ سکیں۔ یہ پودے عموماً طشتریوں میں لگائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر کچھ فاصلے پر رکھی جاتی ہیں۔ اس انداز میں پودے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور کم جگہ گھیرتے ہیں۔ یہ اندازِ کاشتکاری مؤثر گردانا گیا ہے۔
بغیر مٹی کے کاشتکاری کا منفی پہلو
ہائیڈروپونکس ایک طرح سے پیچیدہ کاشتکاری کا انداز قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس میں توانائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہ مہنگا ہے۔ پودوں کو غذائی مواد درکار ہے اور آلات کی بھی ضرورت ہے۔ بجلی کی فراہمی منقطع ہونے پر ساری فصل ضائع ہو سکتی ہے۔ مصنوعی انداز میں حرارت اور روشنی کی فراہمی ذاتی خرچ پر ہے جبکہ روایتی کاشتکاری میں حرارت اور روشنی کا ذریعہ سورج ہے، جو مفت ہے۔
ہائیڈروپونکس کو عروج حاصل ہو سکتا ہے
نظریاتی طور پر بغیر مٹی کے کسی بھی فصل کو اگایا جا سکتا ہے، جیسا کہ کھیرے، ٹماٹر، سبز سلاد، مرچ یا دوسری جڑی بوٹیاں لیکن سبھی کے لیے ایک خاص تکنیک کی ضرورت ہے۔ بظاہر بغیر مٹی کے کاشتکاری ابھی بہت مقبول نہیں ہے لیکن یہ مستقبل کے چیلنج کا سامنا کر سکتی ہے۔ سن 2016 میں اس انداز کی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس کا مالیتی حجم اکیس بلین ڈالر سے زائد تھا۔