مہاتیر محمد نے منصب وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا
24 فروری 2020ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے ملک کے دستوری بادشاہ کے نام تحریر کردہ خط میں اپنے منصب سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس استعفے کے بعد حکمران مخلوط حکومت کا مستقبل بھی متزلزل ہو کر رہ گیا ہے۔ اسی ویک اینڈ پر مہاتیر محمد کے متوقع جانشین انور ابراہیم کے بغیر ایک نئی حکومت تشکیل دینے کی خبریں بھی سامنے آئی تھیں۔
یہ ابھی تک واضح نہیں کہ نئی حکومت کی تشکیل کے بعد بھی مہاتیر منصب وزارت عظمیٰ پر براجمان رہیں گے۔ بظاہر مشرق بعید کے مسلم اکثریتی آبادی کے حامل اس ملک کو اس وقت ایک شدید سیاسی بحران کا سامنا ہے۔
ملائیشیائی سیاسی بحران میں ایک نئی پیش رفت یہ ہے کہ مہاتیر محمد کی سیاسی جماعت ملائیشیائی متحدہ دیسی پارٹی (Bersatu) بھی حکمران اتحاد سے علیحدہ ہو گئی ہے۔ یہ بات پارٹی کے صدر اور ملکی وزیر داخلہ محی الدین یٰسین نے اپنے فیس بک پیج پر بیان کی ہے۔
اتوار تیئیس فروری کو ایک اور سیاسی رہنما انور ابراہیم نے مہاتیر محمد اور اُن کی سیاسی جماعت کو دھوکے باز قرار دیا تھا۔ ابراہیم کے مطابق مہاتیر سن 2018 میں انتخابات میں شکست کھانے والی سیاسی جماعت میں یونائیٹد ملائے نیشنل آرگنائزیشن کے ساتھ ایک نئی مخلوط حکومت تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کوالالم پور سے سیاسی حلقوں نے شناخت مخفی رکھتے ہوئے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ مہاتیر کی سیاسی جماعت نے انور ابراہیم کی پارٹی کے ایک دھڑے اور یونائیٹد ملائے نیشنل آرگنائزیشن کے ساتھ نئی حکومت قائم کرنے کی بات چیت کی ہے۔ اس کا امکان ہے کہ یہ نیا سیاسی اتحاد ایک مرتبہ پھر مہاتیر محمد کو وزیراعظم بنانے کی حمایت کر سکتا ہے تا کہ وہ اپنی پانچ سالہ مدت کو مکمل کر سکیں۔
اس سیاسی ہلچل کی ایک وجہ ملائیشیا میں چین سے جنم لینے والے کورونا وائرس کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کے اشارے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ملائیشیائی کرنسی رنگٹ کی قدر میں کمی بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں رنگٹ کی قدر اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ چورانوے سالہ مہاتیر محمد اور بہتر سالہ سیاسی رہنما انور ابراہیم کے درمیان سیاسی مخاصمت کا پیدا ہونا کوئی نیا نہیں ہے۔ ان کی یہ سیاسی چپقلش اور تناؤ کئی دہائیوں سے ملائیشیائی سیاسی منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ سن 2018 کے پارلیمانی انتخابات میں ماضی کے یہ حریف سیاسی اتحادی بن کر انتخابی عمل میں شریک ہوئے تھے۔
ع ح ⁄ ع ا (روئٹرز، اے ایف پی)