1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرت میں مدد کرنے والے ’دوست‘

مانَسی گھوپال کرشنن/ عاطف توقیر22 اپریل 2016

باسل ولی نے ایک دوسرے مہاجر سے ’مہاجرت میں مدد کرنے والے دوست‘ نامی گروپ سے متعلق سنا۔ اس 23 سالہ شامی نوجوان کو اس گروپ سے مہاجرت میں کیسے اور کتنی مدد ملی؟

https://p.dw.com/p/1Iahd
Screenshot Website start-with-a-friend.de
تصویر: start-with-a-friend.de

حلب سے تعلق رکھنے والے باسل ولی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بتایا کہ ’اسٹارٹ وِد آ فرینڈ‘ نامی گروپ کے کولون میں واقع رابطہ دفتر میں اپنا اندراج کرایا۔ یہیں ایک ہفتے بعد اس کی ملاقات کاتھارینا رائیتھمؤلر نامی لڑکی سے ہوئی، جو کولون یونیورسٹی کی طالبہ تھی اور اس نے ولی کو کولون شہر میں سکونت اختیار کرنے میں مدد دی۔

رائتھمؤلر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’میں ہمیشہ چاہتی تھی کہ میں کوئی اچھا کام کروں۔‘‘

اس نوجوان جرمن طالبہ نے بتایا کہ اسی لیے اس نے خود کو مہاجرین کے معاملات کے لیے رضاکارانہ طور پر وقف کیا۔ رائتھمؤلر کے مطابق نئے سال کے آغاز پر خواتین پر جنسی حملوں کے واقعات اور مہاجرین سے متعلق طرح طرح کی منفی باتیں سننے کے باوجود انہوں نے سوچا کہ مہاجرین کی مدد کی جانا ضروری ہے۔

Katharina Reitmüller und Bassel Wali
باسل اور کاتھارینا دوست بن چکے ہیںتصویر: DW/M. Gopalakrishnan

’’میں نے انٹرنیٹ پر اسٹارٹ وِد آ فرینڈ کا فیس بک گروپ دیکھا اور میں نے سوچا کہ مجھے یہ ضرور کرنا چاہیے۔ مجھے لگا کہ اس میں بہت زیادہ کام بھی نہیں کرنا پڑے گا، پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے سمینارز میں شرکت کروں گی۔‘‘

اس گروپ کے بانیوں میں شامل سارہ روسنتھال کا کہنا ہے، ’’ہم مہاجرین کے معاملے میں ایک کے ساتھ ایک کی طرز پر براہ راست مدد اور تعاون پر زور دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم بچوں کے ہمراہ خاندانوں اور مسائل کے شکار دیگر افراد کے ساتھ بھی جڑنے اور مدد کرنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ اسٹارٹ وِد آ فرینڈ کا درپردہ بنیادی مقصد یہی تھا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ رضاکار نوجوان مہاجرین کو کاغذی کارروائی کے علاوہ نوکری اور گھر ڈھونڈنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔

ابتدا میں اس تنظیم نے رضاکارانہ طور پر کام کا آغاز کیا تھا، تاہم اب اس تنظیم کو جرمن حکومت کی جانب سے بھی کام جاری رکھنے کے لیے سرمایہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

رائتھمؤلر نے بتایا کہ اس نے اس گروپ کی ایک میٹنگ میں شرکت کی، جہاں اس سے اس کے مشاغل کے بارے میں دریافت کیا گیا اور یہ کہ وہ کس قسم کی چیزوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس طرح اس کے ہم خیال مہاجر کو تلاش کرنے میں آسانی رہی، ’’انہوں نے پوری کوشش کی کہ کوئی ایسا مہاجر جس کے مشاغل مجھ جیسے ہی ہوں، مجھ سے ملائیں۔ پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھ جیسا ایک مہاجر موجود ہے۔‘‘

رائتھمؤلر اور ولی دیگر کاغذی کارروائی اور دیگر امور کے علاوہ کولون شہر کی گلیوں میں چہل قدمی اور ایک دوسرے سے مختلف موضوعات پر گفتگو کے ذریعے ایک دوسرے کو زیادہ بہتر انداز سے جاننے میں مصروف رہے۔

ولی کا تعلق شامی شہر حلب سے ہے، جہاں اس نے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے بھائی کے ساتھ بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یورپ پہنچا۔ ولی کا فوٹو گرافی کا شوق، میڈیا اسٹیڈیز کی طالبہ رائتھمؤلر کی بھی گہری دلچسپی کا باعث ہے اور یہی ان دونوں کے درمیان اچھی دوستی کی ایک وجہ بھی بن گیا ہے۔