مہاجرين اور ماحول دوستی کيسے ممکن ہے؟
31 جنوری 2018دنيا بھر ميں مختلف مقامات پر موجود کئی ملين مہاجرين عارضی رہائش گاہوں اور کيمپوں ميں بجلی اور کميونيکيشن کے حصول کے ليے ايسے ذرائع بروئے کار لاتے ہيں جو نہ تو ان کی صحت کے ليے اچھے ہوتے ہيں اور نہ ہی ماحول کے ليے۔ تاہم برطانيہ، اقوام متحدہ اور متعدد امدادی تنظيموں کے اشتراک سے چلنے والی ايک مہم ’موونگ انرجی انيشی ايٹو‘ کے ايک مطالعے کے نتائج ميں سامنے آيا ہے کہ مہاجرين کی دو تہائی تعداد کھانا پکانے کے ليے ماحول دوست چولہے و ايک تہائی تعداد بجلی کے ليے شمسی توانائی استعمال کرنے کو تيار ہے۔ مطالعے کے ايک محقق ماتيا ويانيلو نے خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن کو بتايا، ’’توانائی فراہم کرنے والی کمپنياں مہاجرين کو صارفين کے طور پر نہيں ديکھتيں ليکن اس ضمن ميں بے انتہا مواقع موجود ہيں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کی ترجيح ہے کہ مہاجرين کو، چاہے وہ دنيا بھر ميں جہاں کہيں بھی ہوں، صاف اور ماحول دوست توانائی فراہم کی جائے۔ يو اين ايچ سی آر افريقہ کے ملک کينيا اور خليجی رياست اردن ميں موجود مہاجرين کو اس وقت بھی شمسی توانائی سے پيدا کی گئی بجلی فراہم کر رہا ہے۔ رضاکاروں کی کوشش ہے کہ خطرناک اور نقصان دہ ذرائع کی جگہ پناہ گزينوں کو کيمپوں وغيرہ ميں کم آلودگی پھيلانے والے آلات و اشياء فراہم کی جائيں۔
’کلين کوکنگ ورکنگ کيپيٹل فنڈ‘ کے مطابق کھلے ميدانوں اور روايتی چولہوں ميں جب لکڑی ، چارکول اور دیگر اقسام کے ايندھن کو جلايا جاتا ہے، تو اس سے انتہائی خطرناک دھواں نکلتا ہے۔ يہ دھواں ہر سال لاکھوں لوگوں کی اموات کا سبب بنتا ہے۔ ’مرسی کورپس‘ نامی ايک امدادی تنظيم سے منسلک ايک مشير رافائلا بيلانکا بتاتی ہيں، ’’افريقی ملک يوگنڈا کے ايک گھنے جنگل ميں مہاجرين لکڑی جمع کر کے اسے کھانا پکانے کے ليے استعمال کرتے ہيں، جس کے نتيجے ميں نہ صرف ماحول کو نقصان پہنچا ہے بلکہ مقامی کميونٹی کے ساتھ بھی ان کا تصادم ہوتا رہتا ہے۔‘‘
’موونگ انرجی انيشی ايٹو‘ نامی اسٹڈی کے نتائج ميں يہ زور ديا گيا ہے کہ بے گھر لوگوں کو ماحول دوست توانائی پہنچانے کے ليے اقدامات کيے جائيں۔ اس مطالعے کے ليے کينيا اور برکينا فاسو ميں قريب پانچ سو تارکين وطن سے ان کی رائے پوچھی گئی تھی۔ رافائلا بيلانکا کا اس بارے ميں کہنا ہے، ’’مہاجرين کيمپ توانائی ميں جدت لانے کے مراکز بن سکتے ہيں۔‘‘