1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'مہاجرین‘ جرمنی میں انتخابی مہم کا اہم موضوع

اے ایف پی
16 جولائی 2017

جرمنی میں آئندہ چانسلر کی امیدوار دو بڑی اور اہم جماعتوں کی تیز ہوتی انتخابی مہم کے دوران حالیہ ہفتے کے اختتام پر مہاجرین کے حوالے سے پالیسی اور ڈیجیٹلائزیشن کے موضوعات زیادہ زیر بحث رہے۔

https://p.dw.com/p/2gcIZ
Libanon Feuer in einem Flüchtlingscamp
 تارکین وطن کی تقسیم کا معاملہ بھی یورپی یونین ریاستوں کے مابین تناؤ کا سبب رہا ہےتصویر: Reuters/H. Abdallah

ہفتے کے روز اپنی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کی انتخابی مہم کے ایک جلسے میں چانسلر میرکل نے ملک میں ایک ایسی مرکزی انٹرنیٹ ویب سائٹ کے قیام کی حمایت میں بات کی جس تک عوام کی رسائی ہو ۔

میرکل نے کہا،’’ چاہے آپ اپنی وفاقی حکومت سے رابطہ کرنا چاہیں یا پھر صوبائی یا مقامی حکام سے، آپ کی پہنچ  ہر حکومتی سطح تک ہو گی۔ بچوں کی بہبود سے متعلق سہولیات اور متعلقہ  بونس کے لیے درخواستیں اور رہائشی معاملات سب کچھ اس ویب سائٹ کے ذریعے کرنا ممکن ہو گا۔‘‘

میرکل نے تاہم اس منصوبے کے نفاذ کے لیے کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ میرکل کا کہنا تھا کہ جرمنی کو اس وقت ہر منصوبے کی تفصیلات کو  کمپیوٹرائزڈ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔

 دوسری جانب سوشل ڈیمو کریٹ جماعت ایس پی ڈی کے رہنما مارٹن شُلز کا بھی آج بروز اتوار جرمنی کے مستقبل کے لیے اپنی جماعت کا پلان پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ اس منصوبے میں اقتصادی تعاون اور ترقی کی ایک تنظیم کا قیام بھی شامل ہے۔

Auftakt Klausur CSU-Landesgruppe
تصویر: picture alliance/dpa/N.Armer

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایس پی ڈی کے جرمنی کے لیے مستقبل کے لائحہ عمل میں مہاجرت سمیت بین الاقوامی معاملات سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ اس جماعت نے یورپی یونین میں شامل اُن ممالک کو دیے جانے والے فنڈز روکنے کا وعدہ کر رکھا ہے جو مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

 ایس پی ڈی کے منشور کے مطابق ایسی ریاستوں کو یورپی یونین سے ملنے والی رقوم میں تخفیف کی جائے گی، جو پناہ گزینوں کو اپنے ہاں قبول کرنے سے انکار کرتی ہیں۔

 تارکین وطن کی تقسیم کا معاملہ بھی یورپی یونین ریاستوں کے مابین تناؤ کا سبب رہا ہے۔ چند ممالک نے اس حوالے سے یورہی یونین کی قراردادوں کو رد کرتے ہوئے چند مہاجرین کو اپنے ملک میں آنے دیا اور کچھ ریاستوں نے تو ایک مہاجر کو بھی قبول نہیں کیا۔