’مہاجرین سے متعلق قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے‘
28 دسمبر 2015وزير اعظم راسموسن نے پناہ گزينوں کے بحران کے بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا، ’’اگر يہ اسی طرح جاری رہا ہے، يا پھر اِس ميں خرابی پيدا ہوئی ہے، تو ہم اُس مقام پر پہنچ جائيں گے جہاں بات چيت لازمی ہو جائے گی۔‘‘ اُن کے بقول اِس وقت ڈنمارک اکیلا متعلقہ قوانين ميں تراميم نہيں کرا سکے گا۔ ڈينش وزير اعظم نے يہ بات ’ٹی وی ٹو‘ نامی ايک مقامی ٹيلی وژن اسٹيشن پر اتوار کے روز کہی۔
ڈنمارک ميں لارس لوئکے راسموسن کی وينسٹرے جماعت برسر اقتدار ہے اور اُسے مہاجرین مخالف ڈينش پيپلز پارٹی (DPP) کی حمايت حاصل ہے۔ اِن دونوں پارٹيوں کا موقف ہے کہ سن 1951 ميں طے پانے والے اقوام متحدہ ريفيوجی کنونشن ميں ترميم لازمی ہے تاکہ يہ واضح کيا جا سکے کہ پناہ گزين جس ملک ميں سب سے پہلے پناہ کے ليے پہنچتے ہيں، وہاں اُن کے حقوق کيا ہيں۔
اِس بارے ميں بات کرتے ہوئے راسموسن نے کہا، ’’اگر پناہ کا متلاشی شخص دو سے تين برس ترکی ميں گزار چکا ہو، تو کيا اُسے يورپ جا کر وہاں سياسی پناہ کی درخواست دينا چاہيے؟‘‘ اُن کے بقول موجودہ قوانين کے تحت يہ جائز ہے ليکن اِس بارے ميں بحث کی ضرورت ہے۔ ڈينش وزير اعظم کے خيال ميں يورپی يونين کو کنونشن ميں تراميم سے متعلق کوششوں کی قيادت کرنی چاہيے۔
يہ امر اہم ہے کہ مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں يورپی يونين کا رکن ملک ڈنمارک منفی وجوہات کی بناء پر سرخيوں ميں رہا ہے۔ حال ہی ميں وہاں متعارف کردہ ايک مجوزہ منصوبے کے تحت پناہ گزينوں کے پاس موجود رقم اور ديگر قيمتی اشياء ضبط کر لی جائيں گی۔ اِس منصوبے پر جنوری ميں پارليمان ميں رائے شماری متوقع ہے۔
رواں برس جنوری سے لے کر نومبر تک تقريباً اٹھارہ ہزار تارکين وطن نے چھ ملين آبادی والے ملک ڈنمارک ميں سياسی پناہ کے ليے درخواستيں جمع کرائی ہيں۔ پڑوسی رياست سويڈن ميں توقع ہے کہ اس سال کے اختتام تک پناہ کی درخواستيں جمع کرانے والوں کی تعداد قريب 190,000 ہو جائے گی۔