مہاجرین سے متعلق یورپی پالیسی میں ’بصیرت کی کمی‘
16 مئی 2016خبر رساں ادارے اے پی کی یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے مندوب فرانسوا کریپو نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین کے اب تک اختیار کردہ طریقہ کار پر شدید تنقید کی ہے۔ کریپو کا کہنا تھا کہ یونین نے نہ صرف اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’بصیرت کی کمی‘ کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اس کا عمل قانونی طور پر بھی مبہم ہے۔
جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے لیے مندوب کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی یونین ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی گرفتاریوں کی پشت پناہی بھی کر رہی ہے۔
یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے بارے میں کریپو کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی یونان سے ترکی واپسی کے لیے ’واضح قوانین اور احتسابی نظام کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے‘۔
فرانسوا کریپو سے پہلے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی دیگر عالمی تنظیمیں بھی ترکی اور یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ یہ معاہدہ رواں برس بیس مارچ کو طے پایا تھا اور اپریل کے آغاز سے اس معاہدے پر عمل درآمد بھی شروع ہو گیا تھا۔ اب تک جن تارکین وطن کو یونان سے ترکی واپس بھیجا گیا ہے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے ہے۔
ایتھنز حکام اس متنازعہ معاہدے کے بعد سے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو حراست میں رکھ رہے ہیں۔ یونان میں پچاس ہزار سے زائد مہاجرین پھنسے ہوئے ہیں اور دوسری جانب آسٹریا سمیت بلقان کی متعدد ریاستوں نے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند کر رکھی ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے عالمی ادارے کے نمائندے فرانسوا کریپو نے یونانی دارالحکومت ایتھنز میں متعدد حراستی مراکز اور مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ جن پناہ گزینوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے، ان میں مہاجر بچوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے۔
کریپو نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر مہاجرین کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے تبدیل کرے۔