مہاجرین میں جرائم کا ارتکاب کم ، وفاقی جرمن دفتر کا اعتراف
31 دسمبر 2016جمعہ تیس دسمبر کے روز جرمن میڈیا پر سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی دفتر کے حوالے سے بتایا گیا کہ رپورٹوں اور افواہوں میں جرمنی میں بڑھتی ہوئی جرائم کو شرح کو مہاجرین کی آمد سے جوڑا جاتا ہے، جو غلط بات ہے۔
اس سلسلے میں جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر اور اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ کی ایک تحقیقی ٹیم نے جمعے کے روز اپنی ایک رپورٹ میں اس وفاقی دفتر کی خفیہ دستاویزات کا حوالہ دیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے جرائم کی تعداد میں، جن میں مبینہ طور پر مہاجرین یا تارکین وطن ملوث تھے، رواں برس نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
جرائم میں ایک چوتھائی کمی
رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں مہاجرین، پناہ کے متلاشی افراد یا غیرقانونی تارکین وطن کے جانب سے کیے جانے والے جرائم میں اس سال کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں 23 فیصد کمی دیکھی گئی۔
جرمن وزارت داخلہ یہ اعداد و شمار اگلے ہفتے پیش کرنے والی ہے۔ فیڈرل کریمینل آفس (BKA) کے ایک عہدیدار نے ایسی کسی رپورٹ کی تصدیق تو کی ہے، تاہم اس کے مواد سے متعلق تفصیلات نہیں بتائیں۔
رواں برس اس وفاقی ادارے نے ملک میں مجموعی طور پر دو لاکھ چودہ ہزار چھ سو ایسے جرائم ریکارڈ کیے، جن میں مشتبہ طور پر مہاجرین یا تارکین وطن ملوث تھے۔ یہ تعداد اگرچہ گزشتہ برس کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے، تاہم رواں برس ملک میں دو لاکھ تیرہ ہزار نئے مہاجرین بھی پہنچے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ مہاجرین کی جانب سے کیے جانے والے جرائم میں سے 17 فیصد کا تعلق پبلک ٹرانسپورٹ کو بغیر ٹکٹ استعمال کرنے سے ہوتا ہے، جب کہ اسی طرح قریب ایک چوتھائی جرائم چوری سے متعلق ہیں اور اسی طرح مزید ایک چوتھائی ایسے جرائم ہوتے ہیں، جن میں کسی کو جسمانی تکلیف پہنچائی گئی ہو۔
رپورٹ کے مطابق جسمانی تکلیف پہنچانے کے زیادہ تر واقعات مہاجرین ہی کے درمیان ہونے والے جھگڑوں پر مبنی ہوتے ہیں، جب کہ ان میں سے صرف چھ فیصد ایسے ہوتے ہیں، جن میں کسی مہاجر نے کسی غیرمہاجر کو نشانہ بنایا ہو۔ رپورٹ کے مطابق مہاجرین کی جانب سے قریب ایک اعشاریہ تین فیصد ایسے پرتشدد جرائم بہ شمول ریپ یا جنسی حملے کی صورت میں بھی دیکھے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین کی جانب سے چوری، ڈکیتی یا رہزنی کے واقعات میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔