مہاجرین کی رہائش گاہ میں آگ، تماش بین خوش
21 فروری 2016مذکورہ عمارت پہلے ایک ہوٹل تھی، جسے مہاجرین کے لیے رہائش گاہ میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔
پولیس کے مطابق مشرقی سیکسنی کی ریاست میں اس عمارت میں رات گئے آگ لگنے سے کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا، مگر وہاں موجود افراد نے آتش زدگی پر ’’حقارت آمیز جملے کسے یا آگ لگنے پر مسرت کا اظہار کیا۔ ‘‘
پولیس کا کہنا تھا کہ اسے زبردستی تین افراد کو حادثے کی جگہ سے دور کرنا پڑا کیوں کہ وہ آگ بجھانے کے عمل میں رکاوٹ پیدا کر رہے تھے۔ ان افراد کی عمریں بیس سال کے لگ بھگ بتائی گئی ہیں اور وہ پولیس کے احکامات کی تعمیل نہیں کر رہے تھے۔
حکام کے مطابق امکان ہے کہ عمارت میں آگ دانستہ لگائی گئی تھی، تاہم وہ دیگر امکانات کی بھی تفتیش کر رہے ہیں۔
جہاں جرمن عوام کی ایک بڑی تعداد مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ علاقوں سے آئے مہاجرین کا کھلے دل سے استقبال کر رہی ہے، وہاں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد بھی ہیں جو ان مہاجرین کی جرمنی میں آبادکاری کی پر زور مخالفت کر رہے ہیں۔ جرمنی میں مہاجرین کے کیمپوں میں حملوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
مشرقی جرمنی مہاجرین مخالفت کے لیے زیادہ مشہور ہے۔ سیکسنی کا علاقہ اسلام اور مہاجرین مخالف تنظیم ’پگیڈا‘ کا گڑھ ہے۔ اس تنظیم کا مؤقف ہے کہ جرمنی میں غیر ملکی افراد کی آمد سے جرمن قوم پرستی کو نقصان پہنچے گا اور جرمن عوام پر اسلام پرستی کے سائے گہرے ہوتے جائیں گے۔
چند روز قبل اسی علاقے میں مہاجرین سے بھری ایک بس پر حملہ کیا گیا تھا۔ حملہ آور نعرے لگا رہے تھے، ’’اپنے گھر جاؤ!‘‘، ’’ہم عوام ہیں!‘‘۔
سیکسنی ریاست کے گورنر اسٹانسلا ٹیلیچ نے ان دو واقعات کو ’’دردناک اور ناقابل برداشت‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مہاجرین پر حملہ کرنے والے ’’جرائم پیشہ‘‘ لوگ ہیں۔
واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ ممالک، بالخصوص شام اور عراق سے مہاجرین اب بھی یورپ پہنچ رہے ہیں، جس سے اس براعظم میں بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ مزید کئی لاکھ مہاجرین کی آمد متوقع ہے۔ جرمنی نے اب تک سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دی ہے۔