مہاجرین کے باعث جرمنی میں سیکورٹی خدشات، جائزہ
12 دسمبر 2015یہ جائزہ تحقیق کے ادارے، ٹی این ایس کی جانب سے جرمنی کے موقر جریدے، اشپیگل کے لیے کیا گیا۔ جائزے کے مطابق 54 فیصد جرمن شہریوں کے خیال میں مہاجرین کی وجہ سے جرمنی میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔ جب کہ 51 فیصد لوگوں کو اندیشہ ہے کہ مختلف ممالک سے آنے والے مہاجرین کے باعث جرمنی میں جرائم بڑھ جائیں گے۔
جرمنی میں صرف اس برس کے دوران دس لاکھ سے زیادہ تارکین وطن پناہ کی درخواست دے چکے ہیں۔ پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق شام، عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے مسلمان ممالک سے ہے۔ پیرس میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں دو جہادی ایسے بھی تھے جو پناہ گزینوں کے روپ میں یورپ میں داخل ہوئے تھے۔
اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 65 فیصد جرمن شہری چاہتے ہیں کہ ملک میں مہاجرین کی تعداد کی بالائی حد مقرر کی جائے۔ خیال رہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کی جانب سے بارہا یہ مطالبہ کیا گیا۔ تاہم میرکل نے مہاجرین کی تعداد کی بالائی حد مقرر کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔
تاہم اس جائزے میں جب لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ وہ انگیلا میرکل کی جانب سے رواں برس ستمبر کے آغاز میں کیے گئے اس فیصلے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جس میں میرکل نے ہنگری میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کو جرمنی آنے کی اجازت دے دی تھی تو پچاس فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ میرکل کا فیصلہ درست تھا۔ لیکن بیالیس فیصد لوگوں نے میرکل کے اس فیصلے کو غلط قرار دیا۔
جرمنی کی جانب سے شام میں ’دولت اسلامیہ‘ کے خلاف جرمن افواج کی براہ راست شمولیت کے فیصلے کے بارے میں بھی لوگوں سے ان کی رائے دریافت کی گئی۔ جائزے کے مطابق اکاون فیصد لوگوں کے خیال میں جرمنی کی جانب سے شام میں عسکری کارروائی کرنے کا فیصلہ غلط ہے جب کہ بیالیس فیصد کی رائے میں یہ درست فیصلہ ہے۔
پینسٹھ فیصد لوگوں کے خیال میں دولت اسلامیہ کے خلاف عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے جرمنی میں دہشت گردی کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس بتیس فیصد لوگوں کی رائے میں جنگ میں حصہ لینے یا نہ لینے سے دہشت گردی کے امکانات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ٹی این ایس کی جانب سے یہ جائزہ چار اور آٹھ دسمبر کے درمیان کیا گیا اور اس جائزے میں 1011 لوگوں سے رائے دریافت کی گئی۔