’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘