مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوے کتنے سچے کتنے جھوٹے؟
5 ستمبر 2024پاکستان کے قومی ادارہ شماریات کی جانب سے حال ہی میں مہنگائی کے حوالے سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی تقریباً تین سال بعد 'سنگل ڈیجٹ‘ پر آ گئی ہے اور رواں برس اگست میں مہنگائی کی شرح 9.64 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ افراط زر کا نیچے آنا محض اتفاق نہیں بلکہ یہ ان کی حکومت کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ موجودہ حکومت کے کئی وزرا بھی تکرار کے ساتھ مہنگائی کا اعلان کر کے ''فتح کے شادیانے‘‘ بجا رہے ہیں۔
مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں فرق
لیکن کیا واقعی افراط زر کا نو اعشاریہ چھ پر آنا عوام پر مہنگائی کے بوجھ میں نمایاں کمی کا باعث ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے اقتصادی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے بتایا، ''سب سے پہلے ہمیں مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں فرق جاننے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اگر پچھلے سال مئی میں مہنگائی کا گھوڑا 38 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہا تھا تو اس مہنگائی کے گھوڑے کی رفتار اب نو کلومیٹر فی گھنٹہ پر آ گئی ہے۔ اس کا مطلب نہ تو یہ ہے کہ مہنگائی ختم ہو گئی ہے اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی پچھلے سال کی نسبت کم ہو گئی۔ مہنگائی اب بھی ہو رہی ہے، البتہ اس کے بڑھنے کی رفتار میں کمی آ گئی ہے۔ اس کا کریڈٹ تو بہرحال حکومت کو ملنا چاہیے۔‘‘
اقتصادی تجزیہ کار اور ایک قومی انگریزی روزنامے کے کامرس ایڈیٹر منصور احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف افراط زر کی شرح کو بیان کر کے خوشی سے بغلیں بجانا درست نہیں ہے۔ افراط زر کا اصل فائدہ تب ہوتا ہے، جب پیداوار اور لوگوں کی آمدن بڑھ رہی ہو اور ان کی قوت خرید اتنی ہو کہ وہ کم افراط زر میں اپنی ضروریات کی چیزیں خرید سکیں۔ پاکستان میں ہونے والے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور بھاری ٹیکسوں کے بعد لوگوں کی حقیقی آمدن بہت کم ہو چکی ہے۔
کیا واقعی مہنگائی میں کمی ہوئی ہے؟
منصور احمد کے بقول پاکستان میں افراط زر کی شرح بنگلہ دیش اور بھارت سمیت خطے کے کئی ممالک سے اب بھی کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں جتنی معیشت کی گروتھ ہے، تقریباً اتنی ہی آبادی بڑھ رہی ہے، '' اگر حکومت سچ مچ عوام کو ریلیف دینے میں مخلص ہے تو اسے اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا ہوں گی، اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے اور ٹیکسوں کے دائرہ کار ان طبقوں تک وسیع کرنا ہو گا، جو ٹیکس نہیں دے رہے۔‘‘
آبادی، مہنگائی اور جی ڈی پی، پاکستان پانچ سال بعد کہاں کھڑا ہو گا؟
پاکستان کے ایک اور معاشی ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دس بارہ چیزیں خراب کر کے حکومت ایک معاشی انڈیکیٹر کا چرچا کر کے ''لوگوں کو گمراہ کرنے‘‘ کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے بقول حکومت کا حال یہ ہے کہ جیسے ایک آدمی فیکٹری کو بند کر کے یہ دعوی کرے کہ اس نے اپنا بجلی کا بل کم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، ''حکومت نے درآمدات کم کر دیں۔ عوام پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ لاد دیا، ملک میں غربت بڑھ گئی، اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو چکا، آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ توڑ نہیں چڑھ رہا، ٹیکس ریوینیو میں کمی آ رہی ہے، ٹیکس چوری بڑھ گئی ہے، قرضے واپس کرنے کے لئے پیسوں کا انتظام نہیں ہو رہا، ایسے میں حکومت کا اپنی کامیابیوں کا ڈھول پیٹنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ ‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''کیا حکومت یہ نہیں جانتی کہ جب امپورٹس پر قدغنیں ہٹیں کی تو روپے پر دباؤ آئے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ طاقتور حلقوں نے منی چینجرز کو قابو کرکے روپے کی قدر کو بڑھنے سے روک رکھا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج بھی نظر نہ آنے والے ہاتھوں کے ذریعے ضرورت پڑنے پر اوپر چلی جاتی ہے۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور حکومت کے اپنے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ ملکی معیشت شدید بحرانی کیفیت میں ہے۔ ایسے میں درست اقدامات کرنا اور عوام کو اعتماد میں لینے کے ضرورت ہے نہ کہ الفاظ کو گھما پھرا کر سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ‘‘
ایک اور معاشی ماہر خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب تک لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ نہیں ہو گا اس وقت تک انہیں مہنگائی سے نجات نہیں ملے گی کیونکہ اس وقت بہت سی ضروریات زندگی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔
فرحانہ سعید نامی ایک خاتون نے بتایا کہ وہ چند دن پہلے ہی اپنے گھر کے لیے ماہانہ سودا سلف کی خریداری کر کے آئی ہیں لیکن انہیں ضروریات زندگی کی اہم اشیا کی قیمتوں میں کسی نمایاں کمی کا احساس نہیں ہوا۔