میانمار: اپوزیشن نے شکست تسلیم کر لی
9 نومبر 2010بیس سال بعد میانمارمیں منعقد کئے گئے ان انتخابات میں فوجی جنتا کے سیاسی گروپ متحدہ یونین اور ترقیاتی پارٹی، یو ایس ڈی پی نے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ابتدائی نتائج سامنے آنے کے بعد وہاں کی دو بڑی جمہوریت نواز پارٹیوں نے شکست تسلیم کرتے ہوئے، انتخابات کے دوران وسیع پیمانے پر دھاندلیوں اورفراڈ کےالزامات عائد کئےہیں جبکہ مرکزی اپوزیشن پارٹی نیشنل لیگ فارڈیموکریسی، این ایل ڈی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔
میانمارمیں اتوارکو منعقد کئے ان انتخابات کا منصفانہ اورشفاف ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ، یورپی ممالک اور جاپان نے بھی ینگون کی فوجی حکومت کو ہدف تنقید بنایا اوران انتخابات کو ’شرمناک‘ قرار دیا۔
دوسری طرف چین نے میانمار کی فوجی حکومت کی طرف سے انتخابات منعقد کروانے کے عمل کی ستائش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وہاں منتخب حکومت قائم ہو گی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے منگل کو کہا کہ بیجنگ حکومت میانمار میں جمہوری عمل کے آغاز کا خیر مقدم کرتی ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت نے ان انتخابات کو جمہوری عمل کی طرف ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے انتخابات کی شفافیت اور منصفانہ ہونے پر سوالیہ نشانات اٹھائے ہیں۔ کئی مغربی ممالک کے مطابق یہ انتخابات نہ تو شفاف تھے اور نہ ہی منصفانہ۔
ان تمام باتوں کے باوجود کئی مبصرین نے میانمار میں جاری ایک طویل فوجی حکومت کے بعد ان انتخابات کے انعقاد کو اہم قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں جمہوری عمل کے آغاز کے ساتھ ہی ملک میں اپوزیشن کو کھل کر بات کرنے کا کچھ موقع تو ضرور ملے گا۔
مغربی ممالک کے دباؤ کے بعد میانمار کی فوجی حکومت ملک میں انتخابات کروانے پر مجبور ہوئی۔ اس سےقبل فوجی حکومت نے ملک کا آئین بھی خود ہی بنایا تھا، جس کے مطابق پارلیمان میں ایک چوتھائی سے زائد نشستیں فوج کے لئے مختص ہیں۔ اس آئین کے مطابق دو ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کے علاوہ ملکی اقلیتیوں کی نمائندگی کرنے والے بھی ان انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے ہیں۔ انہی سیاسی قیدیوں میں میانمار میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی آنگ سان سوچی بھی شامل ہیں ، جنہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گل