1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: جمہوریت کی بحالی کے لیے مظاہروں میں اضافہ

8 فروری 2021

میانمار میں فوجی اقتدار کے خلاف مظاہروں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اب اس میں بدھ بھکشوؤں کے ساتھ ساتھ نرسیں بھی ملک گیر احتجاج میں شامل ہوگئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3p3pR
Myanmar Naypyidaw | Militärputsch | Unterstützer des Militärs
تصویر: AFP/Getty Images

میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں پیر کو فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے میں شریک لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے پانی کی تیز دھار کا استعمال کیا۔ ملک گیر مظاہروں کے تیسرے دن سب سے بڑے شہر ینگون (سابقہ رنگون) میں ہزاروں افراد احتجاج میں شریک تھے۔

فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے کو سن 2007 کے 'زعفرانی انقلاب‘ کے بعد کا سب سے بڑا مظاہرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ فوج نے ایک ہفتہ قبل منتخب رہنما انگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔میانمار میں فوجی جنتا کے خلاف مظاہروں میں تیزی

مظاہروں کا دائرہ پھیل رہا ہے

فوجی حکومت کے خلاف مظاہروں میں مختلف شعبہ زندگی کے لوگ شریک ہو رہے ہیں اور اب بدھ راہب خانوں کے بھکشو بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں بھی جمہوریت کے حق میں طلبہ اور ورکرز کا ساتھ دیا تھا۔

Myanmar Proteste gegen den Militärputsch
آٹھ فروری کو بدھ بھکشوؤں نے بھی فوجی حکومت کے خلاف احتجاج میں حصہ لیاتصویر: AP Photo/picture alliance

بدھ بھکشو بھی احتجاج میں شامل

بدھ بھکشوؤں نے بھی فوجی حکومت کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا۔ ماضی میں بھی فوجی حکومتوں کے خلاف احتجاجوں میں بھی ان کا عملی کردار ہمیشی رہا ہے۔ ان کے زعفرانی لبادوں کی وجہ سے سن  کے مظاہروں کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی تھی۔آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

ینگون کے مظاہرے میں ایک سرکاری ہسپتال کی نرس آیی میسان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہیلتھ ورکرز اصل میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کے لیے ان کا پیغام بہت واضح ہے کہ وہ حکومتی معاملات میں اپنی دخل اندازی فی الفور ختم کردے۔

Myanmar Proteste gegen den Militärputsch
میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہےتصویر: Reuters

احتجاج سارے ملک میں

میانمار کے دارالحکومت نیپیداو اور ینگون سمیت دوسرے شہروں میں بھی ہزاروں لوگ مظاہرے میں شریک ہوئے۔ جنوب مشرقی شہر داوائی اور چین کی سرحد سے متصل کاچین ریاست کے دارالحکومت میں بھی ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ مبصرین کے مطابق ان مظاہروں میں ہزارہا افراد کی شرکت نے فوجی حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔ سوچی کے حق میں میانمار بھر میں مظاہرے

فوج کا ردعمل

اتوار کی شام کو ینگون میں فوجی ٹرکوں کی آمد دیکھی گئی۔ ان ٹرکوں کو دیکھ کر عام لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ موجودہ مظاہروں کی پرامن صورت حال بدل بھی سکتی ہے۔

ویک اینڈ اور پیر کے بڑے مظاہروں کو ابھی تک فوج کے ویسے کریک ڈاؤن کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسے کہ سن 1988 اور سن 2007 میں دیکھا گیا تھا۔

 ع ح، ش ج (روئٹرز، اے ایف پی)