1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار، فوجی کریک ڈاؤن شروع

9 فروری 2021

فوج نے منگل سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کرکے مظاہروں پر ربڑ گولیاں چلائیں اور اور آنسو گیس کے گولے داغے۔

https://p.dw.com/p/3p6vu
Myanmar Proteste nach Militärputsch
تصویر: REUTERS

ملک میں احتجاج کی لہر کو روکنے کے لیے فوج نے ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے۔ لیکن منگل کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد پھر بھی احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نکلی۔

ریلیوں کے شرکا نے جمہوری حکومت کی بحالی کے حق میں بینر اٹھا رکھے تھے اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

 دارالحکومت نیپیداو میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیوں کے علاوہ تیز دھار پانی کا بھی استعمال کیا۔میانمار: جمہوریت کی بحالی کے لیے مظاہروں میں اضافہ

جلسے جلوس پر پابندی

فوجی حکام نے رات گئے نئے احکامات جاری کیے، جن کے مطابق پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد کے اکھٹے ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس طرح عملی طور پر فوجی حکومت نے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

Myanmar Proteste nach Militärputsch
ینگون اور منڈالے میں مظاہرین نے نئی حکومتی پابندیوں کو توڑتے ہوئے احتجاج کیاتصویر: REUTERS

اس کے علاوہ رات آٹھ بجے سے صبح چار بجے تک کرفیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات سب سے بڑے شہر ینگون اور دوسری بڑے شہر منڈالے میں ہزاروں افراد کی فوج کی قیادت کے خلاف مظاہرے کچلنے کے لیے ہیں۔ ان مظاہروں کا سلسلہ میانمار میں گزشتہ ویک اینڈ سے شروع ہوا۔سوچی کے حق میں میانمار بھر میں مظاہرے

گرفتاریاں شروع

روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے منڈالے میں کم از کم ستائیس افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ینگون میں کی گئی گرفتاریوں کے بارے میں کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔ دوسری جانب حکومتی ملازمین، ڈاکٹروں اور اساتذہ نے بھی فوجی حکومت کے خلاف جاری مظاہروں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ منتخب جمہوری حکومت کی قیادت اور پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے جمہوریت کے اراکین پارلیمان یکم فروری سے فوجی حکام کی حراست میں ہیں۔

Myanmar Proteste nach Militärputsch
منگل نو فروری کو میانمار میں کئی مقامات پر مظاہرین کو لاٹھی چارج کا بھی سامنا کرنا پڑاتصویر: REUTERS

فوجی کمانڈر کا خطاب

فوجی حکومت کی قیادت کرنے والے سینیئر ترین کمانڈر جنرل مِن آنگ ہلینگ نے پیر کی شام ٹیلی وژن پر خطاب میں فوجی اقدام کا دفاع کیا۔میانمار میں فوجی جنتا کے خلاف مظاہروں میں تیزی

انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کی گئی اور مبینہ ووٹ فراڈ ہی حکومت کا تختہ الٹنے کی وجہ بنا۔

ع ح، ش ج (اے ایف پی، روئٹرز)