میانمار: ملک پر فوج کا کنٹرول، آنگ سان سوچی حراست میں
1 فروری 2021میانمار کی حکمراں جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے پیر کے روز بتایا کہ ملک کی طاقتور فوج نے رات بھر چلنے والے چھاپے ماری کے دوران ملک کی رہنما آنگ سان سوچی کو حراست میں لے لیا۔ اس بظاہر فوجی بغاوت میں پارٹی کے دیگر سینئر رہنماوں کو بھی 'اٹھا لیا‘ گیا ہے۔ فوج نے کہا ہے کہ وہ کمانڈر ان چیف من آنگ ہلاینگ کو اختیارات سونپ رہی ہے۔
پارٹی کے ترجمان میون نیونٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ نوبل امن انعام یافتہ 75 سالہ رہنما آنگ سان سوچی، صدر ون منٹ اور دیگر رہنما اس وقت حراست میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے انہیں بھی حراست میں لے لیا جائے''میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ عجلت میں رد عمل کا اظہار نہ کریں اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قانون کے مطابق کام کریں۔"
نیونٹ نے مزید کہا،”ان حالات میں ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فوج بغاوت کی تیاری کر رہی ہے۔"
قومی ٹی وی نشریات بند
چند گھنٹے بعد سرکاری نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی نے کہا کہ اسے بعض تکنیکی مسائل کا سامنا ہے اس لیے وہ اپنی نشریات جاری نہیں رکھ سکے گا۔
میانمار ریڈیو اورٹیلی ویزن نے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا”موجودہ مواصلاتی پریشانیوں کی وجہ سے ہم انتہائی انکساری کے ساتھ آ پ کو مطلع کرنا چاہیں گے کہ ایم آر ٹی وی پر مستقل پروگرام اور میانمار ریڈیو کی نشریات ہم جاری نہیں رکھ سکیں گے۔"
ایک عینی شاہد نے روئٹرز کو بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر یانگون میں سٹی ہال کے باہر فوج تعینات کردی گئی ہے۔
یانگون میں انٹرنیٹ کنیکشن اور موبائل سروسز پیر کی صبح سے ہی بری طرح متاثر ہیں۔ انٹرنیٹ مانیٹرنگ سروس نیٹ بلاکس کے مطابق میانمار میں پیر کے روز قومی انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی معمول کی سطح سے گر کر 75 فیصد پر آ گئی۔
یہ تازہ پیش رفت میانمار کی سویلین حکومت اور آرمی کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ہوئی ہے۔ ملک میں دہائیو ں سے حکمرانی میں فوج کا ہی عمل دخل رہا ہے۔
فوج نے ایمرجنسی کا اعلان کیا
میانمار کے فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کو انتخابی دھوکہ دہی کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ فوجی کنٹرول والے ایک ٹیلی ویزن نے کہا کہ فوج ایک سال کے لیے ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے رہی ہے اور کمانڈر ان چیف جنرل من آنگ ہلینگ نئے رہنما کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔
فوجی نشریاتی ادارے کے مطابق ملک میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
جنرل من آنگ ہلینگ نے گزشتہ ہفتے فوج سے خطاب کرتے ہوئے بغاوت کا اشارہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر آئین پر عمل نہیں کیا گیا تو ”ضروری" اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
سیاسی کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب ایک فوجی ترجمان نے متنبہ کیا کہ اگر انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی شکایتوں کو دور نہیں کیا گیا تو مسلح افواج”ضروری کارروائی" کرسکتی ہے۔
حالانکہ سنیچر کے روز فوج کے ایک بیان میں بظاہر اپنے بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا گيا تھا کہ جنرل من آنگ کے بیان کی غلط تشریح کی گئی ہے۔ فوج نے اپنے بیان میں کہا تھا ”فوج 2008 کے آئین کی پاسداری کرے گی اور قانون کے مطابق اپنا کام کرے گی۔ بعض ادارے اور میڈیا نے اپنی قیاس کی بنیاد پر یہ خیال کر لیا ہے کہ فوج آئین کو ختم کردے گی۔"
’مضمرات سنگین ہوں گے‘
آنگ سان سوچی نے سن 1988میں فوج کے خلاف مظاہروں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور سن 2012 میں پارلیمانی انتخاب میں حصہ لینے سے قبل تک انہیں برسوں گھر میں نظر بند رہنا پڑا۔ تاہم سن 2016 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے دنیا بھر میں انسانی کارکن اور سفارت کار بظاہر فوجی قیادت والی حکومت کے سامنے جھک جانے پر سوچی کی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔
سنگا پور میں انسٹی ٹیوٹ آف ساوتھ ایسٹ ایشیئن اسٹڈیز میں میانمار اسٹڈیز پروگرام کے ایسوسی ایٹ فیلو رومین کیلاوڈ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے 1988 میں طلبہ کے مظاہروں کے خلاف فوجی کارروائی کے واقعات کا آنگ سان سوچی اور دیگر رہنماوں کی گرفتاری سے موازنہ کرتے ہوئے کہا،”مضمرات کافی سنگین ہوں گے۔ یہ 1988 سے مختلف دنیا ہے۔ گلوبلائزیشن، سوشل میڈیا، کووڈ انیس، ایک نئی امریکی انتظامیہ اور انفرااسٹرکچر کے چینی عزائم کی وجہ سے صورت حال یکسر مختلف ہے۔ اس مرتبہ فوج کے خلاف شدید رد عمل ہوگا۔"
امریکا کی دھمکی
وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا”امریکا برمی فو ج کے ذریعہ ملک کی جمہوریت کو نظر انداز کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات بشمول ملکی سربراہ آنگ سان سوچی اور دیگر سویلین عہدیداروں کی گرفتاری پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔" برما، میانمار کا پرانا نام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن حالیہ انتخابات کو متاثر کرنے کی کوششوں کے خلاف ہے اور ”اگر ان اقدامات کو واپس نہیں لیا گیا تو اس کے لیے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرے گا۔"
آسٹریلیا نے میانمار کی فوج سے گرفتار رہنماوں کو رہا کرنے کی اپیل کی ہے اور کہا کہ فوج ''ایک بار پھر ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔"
جمہوریت کی علمبردار
آنگ سان سوچی، جنرل آنگ سان کی بیٹی ہیں، جنہیں 1948میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے میانمار کے آزادی حاصل کرنے سے عین قبل قتل کر دیا گیا تھا۔ آنگ سان سوچی انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے اور شادی کے بعد 1980کی دہائی میں وطن واپس لوٹیں۔
وہ فوجی آمریت کے خلاف تحریک میں اہم رہنما کے طور پر سامنے آئیں۔ 1990کے انتخابات میں ان کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کامیابی حاصل کی لیکن حکومت نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
سوچی نے تقریباً پندرہ برس نظربندی میں گزارے۔ انہیں 1991میں امن کا نوبل انعام سے نوازا گیا۔
سن 2015 میں ان کی جماعت نے ملکی انتخابات میں زبردست فتح حاصل کی۔ غیر ملکی شہریت رکھنے والے بچوں کی وجہ سے ملکی آئین کے مطابق وہ صدر نہیں بن سکیں تاہم انہیں میانمار کی اسٹیٹ کونسلر کا عہدہ دیا گیا۔
اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کے الزامات
آنگ سان سوچی کو میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات کے لیے سخت نکتہ چینی کا نشانہ بننا پڑا۔
سن 2017 میں فوجی کارروائی کے دوران ہزاروں روہنگیا مسلمان ہلاک ہوگئے جب کہ سات لاکھ سے زائد پڑوسی ملک بنگلہ دیش ہجرت کرگئے۔ سوچی پر روہنگیا مسلمانوں کی عصمت دری، قتل اور نسل کشی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)