میانمار میں فوجی جنتا کے خلاف مظاہروں میں تیزی
5 فروری 2021اس موقع پر بعض مظاہرین نے آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی حمایت میں بازوؤں پر سرخ رنگ کی پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔ مظاہرین نے اس موقع پر تین انگلیوں والا سلیوٹ بھی کیا، جو خطے میں آمریت مخالف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔
اس موقع پر طلبا نے آنگ سان سوچی زندہ باد کے نعرے لگائے۔ مظاہرے میں شامل ایک طالب علم نے اے ایف پی نیوز ایجنسی کو بتایا، "ہم اپنی نسل کو اس قسم کی فوجی آمریت کا شکار نہیں ہونے دیں گے۔"
اسی دوران، میانمار کے دیگر علاقوں سے بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔ بعض علاقوں میں طبی عملہ، طلبا اور اساتذہ ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔
ينگون میں لوگ راتوں کو برتن بجا کر اور انقلابی گانے گا کر اقتدار پر فوج کے قبضے کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
میانمار میں فوجی حکام نے فیس بک پر پابندی لگا دی ہے، جس کے بعد لوگ ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر فوجی قیادت کی مذمت کر رہے ہیں۔
سیاسی قیادت کہاں ہے؟
آنگ سان سوچی اور ان کے قریبی ساتھیوں کو پیر کے بعد سے نہیں دیکھا گیا۔ حکام کے مطابق وہ اپنے گھروں ميں ہی نظربند ہیں۔ پولیس نے بدھ کو آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا جبکہ برطرف صدر وِن مِنٹ کے خلاف قدرتی آفات کے دوران قوائد کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
میانمار میں یکم فروری کو نو منتخب پارلیمنٹ نے حلف اٹھانا تھا۔
فوج گزشتہ نومبر کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتی ہے اور اس نے افتتاحی اجلاس کے انعقاد کے بجائے آنگ سان سوچی کی حکومت کو دوبارہ عام انتخابات کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ انتخابات میں خاتون رہنما کی سیاسی جماعت کو واضح کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
فوج نے ایک سال کے لیے ہنگامی حالت کا نفاذ کیا ہے۔ فوج نے ایک سال بعد پارلیمانی انتخابات کرانے کا دعوی کيا ہے۔
امریکا سمیت جی سیون گروپ کے ممالک نے میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے کی پر زور الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان ممالک کا مطالبہ ہے کہ فوج فوری طور پر ایمرجنسی ختم کر کے منتخب جمہوری حکومت کو بحال کرے۔