1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقوام متحدہ کو میانمار میں وسیع پیمانے پر مظالم کا خدشہ

23 اکتوبر 2021

اقوام متحدہ نے میانمار کے شمالی علاقوں میں فوج کی بھاری نفری کی تعیناتی پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔ میانمار میں رواں برس یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد سے مسلسل انتشار کی صورت حال ہے۔

https://p.dw.com/p/425rm
Myanmar Mandalay Putsch Militärkonvoi
تصویر: AP Photo/picture alliance

اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ میانمار میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ ملکی فوج کی بہت بھاری نفری شمالی علاقوں میں تعینات کی جا رہی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہاں کسی بھی ممکنہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بہت زیادہ انسان ہلاک ہو سکتے ہیں۔

میانمار: پانچ ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان

اس تناظر میں میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی وقائع نگار ٹام اینڈریو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عالمی برادری کو وسیع پیمانے پر مظالم کے ارتکاب کی کسی بڑی خبر کے لیے تیار رہنا ہو گا۔

USA | UN-Vollversammlung in New York
اقوام متحدہ کے خصوصی وقائع نگار نے میانمار بارے سالانہ رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیتصویر: imago/Xinhua

ٹام اینڈریو کی رپورٹ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں  میانمار کے لیے عالمی ادارے کے مقرر کردہ خصوصی وقائع نگار ٹام اینڈریو نے اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وہاں وسیع پیمانے پر مظالم کے ارتکاب کا خدشہ ظاہر کیا۔ میانمار سے متعلق اس رپورٹ میں وہاں گزشتہ ایک سال کے حالات و واقعات کا جائزہ شامل ہے۔

اس رپورٹ میں خاص طور پر انسانی حقوق کی صورت حال کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ٹام اینڈریو نے جنرل اسمبلی میں اقوام عالم کے نمائندوں کو بتایا کہ انہیں میانمار کے شمال اور شمال مغرب میں ہزاروں فوجیوں کے متعین کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں ان فوجیوں کے ساتھ بھاری ہتھیار اور گولہ بارود بھی پہنچائے گئے ہیں۔

میانمار فوجی حکومت کے سربراہ آسیان سمٹ سے باہر کر دیے گئے

جنگی جرائم  اور انسانیت کے خلاف جرائم

ٹام اینڈریو نے یہ بھی کہا کہ یہ امکان ہو سکتا ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم میں ملوث ہو۔

Russland 9. Moskauer Konferenz für internationale Sicherheit l Min Aung Hlaing, Myanmar
آسیان کے سربراہی اجلاس میں میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ کو شرکت سے روک دیا گیا ہےتصویر: Sefa Karacan/Anadolu Agency/picture alliance

ان کے مطابق اس وقت فوجی نقل و حرکت ویسی ہی ہے، جیسی سن 2016 اور 2017 میں راکھین کی ریاست میں آباد روہنگیا مسلم اقلیتی آبادی کی نسل کشی کے لیے کیے گئے حملوں کے وقت دیکھی گئی تھی۔

تب اس فوجی کارروائی کے دوران سات لاکھ چالیس ہزار روہنگیا باشندے اپنی جانیں بچا کر خاص طور پر بنگلہ دیش اور اور سمندری راستوں سے مشرقِ بعید کے ممالک کی جانب چلے گئے تھے۔ اس کریک ڈاؤن کے دوران اس اقلیتی آبادی کے کئی دیہات تباہ کر دیے گئے اور ہزاروں روہنگیا باشندے مارے بھی گئے تھے۔

میانمار: سوچی کے ’نمائشی‘ مقدمے سے فوج کیا چاہتی ہے؟

المی برادری سے درخواست

اقوام متحدہ کے اس خصوصی اہلکار نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ موجودہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت کو جہاں مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی روکی جائے وہیں پر اس کو جائز قرار دینے کا کوئی فیصلہ بھی نہ کیا جائے۔

Myanmar I buddhistische Mönche protestieren
فوجی حکومت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں میانمار کے ہر طبقے نے صدائے احتجاج بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہےتصویر: STR/AFP

انہوں نے اپنی اس رپورٹ میں حال ہی میں ہزاروں قیدیوں کی رہائی کا بھی ذکر کیا۔ گزشتہ پیر کے روز میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ مِن آنگ ہلینگ نے رواں برس یکم فروری کے بعد شروع ہونے والے عوامی احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے پانچ ہزار سے زائد افراد کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

میانمار: 'بدھسٹ اسامہ بن لادن' کو رہا کر دیا گیا

میانمار ہی کے حوالے سے ایک اور پیش رفت یہ بھی دیکھنے میں آ چکی ہے کہ رواں ماہ کے اواخر میں ہونے والی جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے سربراہی اجلاس میں میانمار میں فوجی حکومت کے سربراہ کو شرکت سے روک دیا گیا ہے۔

ع ح / م م (اے ایف پی)