1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل، زیہوفر معاہدے کو دیگر یورپی رہنما کیسے دیکھتے ہیں؟

3 جولائی 2018

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنی قدامت پسند حلیف جماعت کے ساتھ مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے مزید بند کرنے کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس ڈیل کو جرمنی اور یورپ میں دیگر سیاسی رہنما کیسے دیکھ رہے ہیں؟

https://p.dw.com/p/30kp4
Spitzentreffen von CDU und CSU
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Hase

جرمن چانسلر میرکل کا اپنی حلیف جماعت سی ایس یو کے ساتھ پناہ گزینوں کے حوالے سے تازہ ترین معاہدہ ممکنہ طور پر آسٹریا کی سرحد کے ساتھ  ایک نیا نظام قائم کر سکتا ہے۔ یورپی یونین کی دیگر رکن ریاستوں میں رجسٹرڈ مہاجرین کو، جنہیں ڈی پورٹ کیا جانا ہو گا، جرمنی کی آسٹریا کے ساتھ سرحد پر قائم عبوری مراکز میں رکھا جائے گا۔ اس سے قبل کہ ایسے مہاجرین کو واپس اُن کے آبائی ممالک میں واپس بھیجا جائے، یورپی یونین کو اُن ممالک سے بھی اس حوالے سے معاہدے کرنا ہوں گے۔ تاہم اگر یہ حکومتیں اپنے شہریوں کو واپس لینے سے انکار کر دیتی ہیں تو پھر جرمن قدامت پسند سیاسی جماعتیں آسٹریا کو قائل کرنے کی کوشش کریں گی کہ وہ ان مہاجرین کو قبول کر لے۔
جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد سن 2015 اور سن 2016 کے مقابلے میں رواں برس خاطر خواہ طور پر کم ہوئی ہے۔ رواں برس جنوری اور مئی کے درمیان یہ تعداد 78،026 رہی۔
 جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس سال اب تک جرمنی آنے والا  ہر چار میں سے ایک تارک وطن کسی دوسرے یورپی ملک میں پہلے سے ہی پناہ کی درخواست دائر کر چکا تھا۔ 
ادھر تارکین وطن کی جرمنی آمد میں کمی کے باوجود باویرین جماعت سی ایس یو میرکل کی مہاجرت کی پالیسی کو سخت تر بنائے جانے پر مصر تھی۔

Belgien EU-Gipfel in Brüssel | Sebastian Kurz
تصویر: Getty Images/AFP/L. Marin


دوسری جانب ’عبوری مراکز‘ کی تجویز ایک ایسا مشورہ ہے جسے میرکل کے حکومتی اتحاد کی تیسری فریق اور  مرکز سے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی جماعت ایس پی ڈی سن 2015 میں مسترد کر چکی ہے۔
 تاہم ایس پی ڈی کی رہنما آندریا ناہلیس نے آج ہی ایک بیان میں کہا ہے کہ مختصر تعداد میں مہاجرین کو ڈیل کرنے کے لیے نیا مجوزہ پلان تارکین وطن کو اُس طرح متاثر نہیں کرے گا جیسی صورت حال سن 2015 میں تھی جب روزانہ ہزاروں تارکین وطن جرمنی پہنچ رہے تھے۔ تاہم ناہلیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ڈیل ایک ایسا چیک ہے جو اس ڈیل کے عالمی معاہدوں پر انحصار کے تناظر میں واپس بھی ہو سکتا ہے۔
تارکین وطن کو یورپ میں اُن کے داخلے کے اوّلین ممالک واپس بھیجنے کا دارومدار بھی ان ممالک کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں پر ہو گا۔ گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں ہنگری، چیک ریپبلک، سلوواکیہ اور پولینڈ سمیت متعدد وسطی یورپی ممالک نے تارکین وطن کی ایسی منتقلیوں کو مسترد کر دیا تھا۔
اسی طرح اٹلی جو مہاجرت کے حوالے سے اہم ممالک میں شامل ہے، اس فہرست میں کسی طور شامل ہی نہیں ہے۔ ادھر آسٹریا نے یہ کہتے ہوئے کہ نئے جرمن پلان سے متعلق برلن حکومت نے اُس سے مشاورت نہیں کی، جرمنی سے وضاحت طلب کر لی ہے۔     
ص ح/ ا ا / اے ایف پی