میرکل کا دورہء ترکی: اتفاق بھی، اختلاف بھی
30 مارچ 2010چانسلرمیرکل نے اس تاریخی میوزیم کی تعریف کرتے ہوئے مہمانوں کی کتاب میں لکھا کہ یہ ایک ایسے شہر میں فن تعمیرات کا بہترین شاہکار ہے، جو مختلف مذاہب کا مرکز رہا ہے۔
میرکل، ایردوآن مذاکرات میں جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کے مسائل بھی زیرِ بحث آئے۔ جرمنی میں تین ملین سے ترک نسل کے باشندے آباد ہیں۔ جرمنی میں ترک زبان میں تعلیم دینے والے اسکول کھولنے کے حوالے سے چانسلر میرکل کا ایک حالیہ بیان ترکی میں بہت سے سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیرِ بحث رہا ہے۔ اس سلسلے میں انگیلا میرکل نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: " اگر جرمنی نے ترکی سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں میں اپنے تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں تو ظاہر ہے کہ ترکی بھی جرمنی میں ترک تعلیمی ادارے قائم کرسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ جرمنی میں رہائش پذیر ترک باشندے ایسے تعلیمی اداروں کو اپنی طرف سے جرمن زبان نہ سیکھنے کی وجہ بنا لیں۔"
چانسلر میرکل اپنے دورہ ترکی کے دوسرے روز استنبول میں ایک جرمن اسکول کا دورہ بھی کر رہی ہیں جبکہ وہ ترک وزیرِاعظم رجب طیب اردوآن کے ساتھ مل کر ترک جرمن اقتصادی فورم کے ایک پروگرام میں بھی شرکت کریں گی۔
جرمنی ترکی کا ایک اہم کاروباری ساتھی ہے، لیکن اس کے باوجود برلن نے کبھی بھی گرمجوشی سے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی حمایت نہیں کی۔
اپنے موجودہ دورے کے دوران بھی انگیلا میرکل نے اس بات کی وضاحت کی کہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ قبرص کا تنازعہ ہے۔ جرمن چانسلر نے ترک حکومت کی خواہشات کے برعکس انقرہ کو مکمل رکنیت کے بجائے، یورپی یونین میں خصوصی پارٹنرشپ کی پیشکش کی۔
دونوں ممالک ایران کے جوہری پروگرام سے پیدا ہونے والے مسئلے کو بھی مختلف زوایہ ہائے نظر سے دیکھتے ہیں۔ سوچ کا یہ اختلاف پیر کو چانسلر میرکل اور وزیر اعظم ایردوآن کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی سامنے آیا۔ جرمن چانسلر نے ایک بار پھر یہ کہا کہ برلن ایران پر پابندیوں کی حمایت کرے گا جبکہ ایردوآن نے ایسی پابندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس تنازعے کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ترک حکومت اس مسئلے کے حل میں مصالحانہ کردار ادا کرسکتی ہے۔´
ترک وزیرِ اعظم نے اسرائیل کا نام لئے بغیر کہا کہ اس علاقے میں ایک ملک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، لیکن اس پر پابندیاں لگانے کی بات نہیں کی جاتی، کیونکہ وہ ملک ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کا رکن نہیں ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جرمن چانسلر کا ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کو قبرص کے مسئلے کے حل سے مشروط کرنا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ترکی کو یورپی یونین کا رکن بننے کے لئے ابھی بھی کئی سال انتظار کرنا پڑے گا۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک