’میری بیٹی کو سسرال والوں نے آگ لگا کر قتل کیا‘
18 جولائی 2016افغان خواتین کو سنگین انسانی حقوق کے مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں جسمانی تشدد کے علاوہ جنسی تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ غیرت کے نام پر قتل بھی آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔ پینتالیس سالہ محمد اعظم کا دارالحکومت کابل میں نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی زارا کے لیے انصاف چاہتے ہیں۔
محمد اعظم کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کو پہلے تو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں اسے آگ لگا دی گئی۔ ان کا کہنا تھا ان کی بیٹی گزشتہ ہفتے کے شب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے کابل کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گئی ہے۔ محمد اعظم نے بتایا کہ ان کی بیٹی صوبہ غور کے ایک دور دراز کے علاقے میں رہتی تھی، جہاں اس کے خلاف یہ کارروائی کی گئی۔
محمد اعظم کا مزید کہنا تھا کہ وہ کابل اس وجہ سے آئے ہیں تاکہ انہیں انصاف مل سکے کیوں کہ غور میں انہیں انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے۔ اعظم کا کہنا تھا کہ اس کیس کی وجہ سے انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ صوبہ غور سے اکثر خواتین کے خلاف تشدد کی رپورٹیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ پندرہ برسوں میں عالمی برادری کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود افغانستان میں حقوق انسانی خصوصاً حقوق نسواں انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں، جن کے مداوے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
پیر کے روز محمد اعظم کے خاندان کے لوگوں کے علاوہ تقریباﹰ پچاس افراد نے انصاف کے لیے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ویدہ ساغری کا کہنا تھا کہ افغانستان کا عدالتی شعبہ بھی خواتین کے معاملات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، ’’یہ بھی ایک وجہ ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی نہیں ہو رہی۔ ان پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، ان کا مارا پیٹا جاتا ہے، یہ مقامی جرگوں کا نشانہ بنتی ہیں، انہیں سنگسار کیا جاتا ہے، جبری شادیوں اور جبری اسقاط حمل پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘‘
افغانستان میں بالغ خواتین کا صرف بارہ فیصد خواندہ ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح انتہائی کم ہے۔