میرے بچے میرے ہاتھوں سے پھسل گئے، ایلان کا باپ
3 ستمبر 2015آج جمعرات تین ستمبر کو تین سالہ ایلان کُردی کی وہ تصویر دنیا بھر کے اخبارات میں چھپی ہے جس میں یہ ننھا بچہ ترکی کے ایک ساحل پر مردہ حالت میں پڑا ہے۔ ایلان کُردی کی اس تصویر نے مہاجرین کو درپیش ان خطرات کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے جن کا وہ جنگ زدہ علاقوں سے نکل کر یورپ پہنچنے کی کوششوں میں سامنا کر رہے ہیں۔
عبداللہ کرُدی کے مطابق بدھ کی شب گنجائش سے زائد افراد سے بھری ربڑ کی کشتی الٹنے کے فوراﹰ بعد ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے بچے اور اس کی بیوی ڈوب گئے ہیں۔ عبداللہ کے مطابق سمندر میں اٹھنے والی بڑی موجوں کے باعث کشتی کا کپتان افراتفری کا شکار ہو گیا اور اس نے سمندر میں چھلانگ لگا کر راہ فرار اختیار کر لی۔ جس کے بعد اس نے کشتی کو سنبھالنے کی کوشش کی: ’’میں نے اسٹیئرنگ سنبھالا مگر لہریں اتنی بلند تھیں کہ کشتی اُلٹ گئی۔ میں نے اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو بازوؤں میں بھر لیا اور سمجھ گیا کہ ہم سب مر جائیں گے۔‘‘
کُردی کے مطابق، ’’ہم نے کشتی کو پکڑنے کی کوشش کی مگر ہوا خارج ہونے کے باعث وہ ڈوب رہی تھی۔ گھپ اندھیرا تھا اور ہر کوئی چیخ رہا تھا۔‘‘
بدھ کی شب دو کشتیاں الٹنے کے باعث کُل 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان ہلاک ہونے والوں میں ایلان کا چار سالہ بھائی غالب اور ان کی والدہ ریحانہ بھی شامل ہیں۔ یہ خاندان شامی شہر کوبانی تعلق رکھتا ہے اور رپورٹوں کے مطابق جنگ زدہ علاقے سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان امن کی تلاش اور بہتری زندگی کی امید کے ساتھ کینیڈا جانے کی کوشش میں تھا۔