میونخ حملہ: ایک جنونی کی کارروائی یا دہشت گردی؟
23 جولائی 2016میونخ کے پولیس چیف ہوبیرٹُس اندرائے نے تئیس جولائی ہفتے کی صبح بتایا کہ اٹھارہ سالہ حملہ آور کے محرکات ابھی تک ’مکمل طور پر غیر واضح‘ ہیں۔ اُنہوں نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’اس سوال کا تعلق محرکات سے ہے کہ آیا یہ دہشت گردی تھی یا ایک جنونی شخص کی طرف سے کی جانے والی اندھا دھند کارروائی اور محرکات کے بارے میں ہم ابھی کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔‘‘
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس شخص کے پاس ایک پستول تھا اور اُس نے کمر پر سُرخ رنگ کا سفری تھیلا لٹکا رکھا تھا۔ اس شخص نے جمعے کو شام پانچ بج کر باون منٹ پر جرمن شہر میونخ میں اولمپک شاپنگ سینٹر کے قریب ایک میکڈانلڈ ریستوراں کے باہر فائرنگ شروع کر دی تھی۔
اندرائے نے بتایا کہ فائرنگ کا نشانہ بننے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ جو سولہ افراد زخمی ہوئے ہیں، اُن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔
شروع شروع میں عینی شاہدوں کے بیانات کی روشنی میں حملہ آور کے دو مبینہ ساتھیوں کو بھی تلاش کیا جا رہا تھا، جو ایک کار میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گئے تھے تاہم بعد میں پولیس نے ان دونوں سے پوچھ گچھ کی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ اُن کا اس حملے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
بتایا گیا ہے کہ حملہ آور کے پاس جرمنی اور ایران کی دوہری شہریت تھی اور وہ گزشتہ دو برسوں سے میونخ میں رہ رہا تھا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق اُس نے اس حملے کے بعد خود کو گولی مار لی۔ اُس کی لاش جائے واردات سے کوئی ایک کلومیٹر دور ملی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ اُس کے سفری تھیلے میں کوئی بارودی مواد وغیرہ ہو گا تاہم تلاشی لیے جانے پر اُس میں سے ایسا کچھ بھی برآمد نہیں ہوا۔
اس حملے کے بعد میونخ میں افراتفری پھیل گئی، پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام عارضی طور پر معطل ہو گیا اور لوگوں کو گھروں کے اندر ہی رہنے کے لیے کہہ دیا گیا۔ میونخ کے حکام نے ممکنہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے ہمسایہ صوبوں سے بھی پولیس کی اضافی نفری طلب کر لی تھی۔ مجموعی طور پر دو ہزار تین سو پولیس اہلکار شہر بھر میں ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔
اس واقعے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کرنے کے لیے جرمنی کی قومی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس ہفتے کے روز دارالحکومت برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کی سربراہی میں منعقد ہونے والا ہے۔