میونخ سلامتی کانفرنس سے جرمن صدر کا تاریخی خطاب
1 فروری 2014سالانہ میونخ سلامتی کانفرنس کے پہلے دن بروز جمعہ جرمن صدر نے افتتاحی تقریر میں کہا کہ عالمی سطح پر پائے جانے والے مسائل کی نشاندہی اور ان کے خاتمے کے لیے برلن حکومت کو زیادہ بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی کو دوسری عالمی جنگ سے جڑے احساسِ خطا کو بھول کر بین الاقوامی امور میں بہتری لانے کے لیے زیادہ ذمہ داری نبھانا چاہیے۔
جرمن صدر گاؤک نے کہا کہ آنکھیں بند کرنے یا خطرات کے خوف سے بھاگنے کے بجائے ثابت قدم رہنا چاہیے، ’’عالمی اقدار کو بھولنے یا انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اپنے عالمی پارٹنرز کے ساتھ مل کر ان اقدار کی پاسداری کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اجازت کے بعد کبھی کبھار کسی تنازعے کے حل کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہو جاتا ہے، ’’لیکن فوجیوں کی تعیناتی مجموعی حکمت عملی کا ایک عنصر ہوتا ہے۔‘‘
جرمن صدر نے کہا، ’’جرمنی کبھی بھی صرف فوجی حل کی حمایت نہیں کرے گا بلکہ مسائل کے حل کے لیے سیاسی اور سفارتی راستوں کو فوقیت دے گا۔ تاہم جب آخری حل کے لیے جرمن فوجی دستوں کی تعیناتی کا معاملہ زیر بحث آئے تو جرمنی کو صرف ’نہیں‘ ہی نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ تاہم ایسی صورتحال میں بغیر سوچے سمجھے ’ہاں‘ بھی نہیں کرنا چاہیے۔
جرمن صدر نے اپنے اس تاریخی خطاب میں خبردار کیا کہ ریاستی خود مختاری اور فوجی مداخلت نہ کرنے جیسے اصولوں کی بنیاد پر سفاک حکومتوں کو کھلا نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ گاؤک نے زور دیا کہ جنگی یا انسانیت کے خلاف جرائم، قتل عام، نسل کشی یا انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لیے جرمنی کو اپنے اتحادی ممالک کو مکمل تعاون فراہم کرنا چاہیے۔
اسٹریٹیجک کمیونٹی کی اس اہم کانفرنس کے دوران شام کے تنازعے کے علاوہ یوکرائن کی صورتحال پر بھی غور کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام اور امریکی آن لائن نگرانی کے معاملے پر بھی بحث کی جائے گی۔ اس کانفرنس کے دوسرے دن بروز ہفتہ امریکی وزیرخارجہ اور امریکی وزیر دفاع چک ہیگل بھی شرکاء سے خطاب کریں گے۔ بیس ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت کے علاوہ پچاس ریاستوں کے وزرائے خارجہ و دفاع بھی اس تین روزہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔