میونخ سکیورٹی کانفرنس کے ایجنڈے پر عرب احتجاج کا غلبہ
5 فروری 2011اِس سے پہلے تک خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ جرمن شہر میونخ میں جمعہ سے شروع ہونے والی اِس کانفرنس میں اِس بار عالمی سلامتی پر اقتصادی بحران کے اثرات، ایٹمی تخفیفِ اسلحہ، سائبر جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور افغانستان میں نیٹو کو درپیش مشکلات پر بات کی جائے گی لیکن اب ایسا نظر آ رہا ہے کہ عرب دُنیا میں جمہوریت کے حق میں شروع ہونے والا احتجاج اِس کانفرنس کے مرکزی ایجنڈے کو پیچھے دھکیل دے گا۔
میونخ کے اِس سالانہ اجتماع میں دُنیا بھر سے سیاسی قائدین اور حکومتی وُزراء کے ساتھ ساتھ خارجہ اور سلامتی کے امور کے سرکردہ بین الاقوامی ماہرین بھی شرکت کرتے ہیں۔ اِس بار اِس میں شریک شخصیات میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون، جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن بھی شامل ہیں۔
ڈیووس کے عالمی اقتصادی فورم کے چند روز بعد منعقد ہونے والی اِس ’میونخ سکیورٹی کانفرنس‘ میں عرب دُنیا اور مشرقِ وُسطیٰ میں جنم لینے والے نئے سیاسی رجحانات پر تبادلہء خیال کا موقع مل سکے گا۔
اِس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے اِسی کانفرنس کے موقع پر یورپی یونین، روس، امریکہ اور اقوام متحدہ پر مشتمل چہار فریقی گروپ برائے مشرقِ وُسطیٰ کا اجلاس بھی منعقد کرنے کی تجویز پیش کر دی تھی۔ چنانچہ اب یہ اجلاس بھی اِسی کانفرنس کے دوران ہفتے کی سہ پہر کو منعقد ہو گا۔
بدھ 2 فروری کو سرکردہ فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے اِس چہار فریقی گروپ پر زور دیا کہ وہ 1967ء کی سرحدوں کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سرحدیں تسلیم کر لے اور مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کے اسرائیلی اقدام کی مذمت کرے یا پھر ’مزید ہنگاموں، ابتری اور خونریزی‘ کا سامنا کرے۔
اِس کانفرنس کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اپنے روسی ہم منصب سیرگے لاوروف کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کے ساتھ ہتھیاروں میں تخفیف کے اُس اسٹارٹ معاہدے کی دستاویزات کا تبادلہ کریں گی، جس کی دونوں ملکوں کے پارلیمانی ادارے توثیق کر چکے ہیں۔
اِس کانفرنس کے میزبان جرمن سفارت کار وولف گانگ ایشنگر ہیں، جو امریکہ اور برطانیہ میں جرمنی کے سفیر رہ چکے ہیں۔ اُنہوں نے امید ظاہر کی کہ عرب خطے کے رہنما مشرقی یورپی ممالک کے تجربات سے کوئی سبق سیکھیں گے، جنہوں نے بتدریج کمیونسٹ آمریتوں کو رخصت کرتے ہوئے جمہوری عمل کو اپنے ہاں رواج دیا ہے۔ تاہم ایشنگر نے اُن مصری مظاہرین کی حد سے زیادہ حمایت کرنے کے سلسلے میں احتیاط سے بھی کام لینے پر زور دیا، جو مثلاً صدر حسنی مبارک کو فوری طور پر اقتدار سے رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ ایشنگر نے سوال کیا کہ آخر فوری طور پر کون ہے، جو مبارک کی جگہ لے گا؟ اُنہوں نے کہا، تاریخ بتاتی ہے کہ کسی آمر کی جگہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی جمہوری حکومت ہی آئے۔
میونخ کی سکیورٹی کانفرنس میں شریک تقریباً 350 شخصیات میں سعودی عرب اور کویت کی حکومتوں کے سرکردہ نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ مصر اور مشرقِ وُسطیٰ کے لیے خصوصی امریکی نمائندے کے ساتھ ساتھ سرکردہ اسرائیلی حکومتی اہلکار بھی اِس اجتماع میں موجود ہوں گے۔ یہ کانفرنس اتوار 6 فروری کو افغانستان کے موضوع پر ایک بحث کے ساتھ اختتام کو پہنچے گی، جس میں افغان صدر حامد کرزئی بھی شریک ہوں گے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ