1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میں سانس نہیں لے پا رہا‘، خاشقجی کے آخری الفاظ

10 دسمبر 2018

سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے قبل ان کے آخری لمحات کی ایک آڈیو ریکارڈنگ سامنے آئی ہے۔ اس ریکارڈنگ سے اس قتل کے بارے میں مزید معلومات سامنے آئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/39noh
Bildkombo Saudi-Arabien | Jamal Khashoggi & Mohammed bin Salman

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق جمال خاشقجی کے آخری الفاظ تھے، ’’میں سانس نہیں لے پا رہا‘‘۔ سی این این نے اپنی اس رپورٹ میں ایک ایسے ذریعے کا حوالہ دیا ہے، جس نے اس ریکارڈنگ کا تفصیلات پڑھی ہیں۔

سی این این کے اس ذریعے کے مطابق ریکارڈنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاشقجی کو پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کے تحت کی قتل کیا گیا۔ یہ آڈیو ٹیپ ترک حکام نے امریکا سمیت بعض اہم ممالک کو ثبوت کے طور پر فراہم کی تھی۔ ترک حکام نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ ریکارڈنگ کس طرح سے حاصل ہوئی۔

Jamal Khashoggi
تصویر: Getty Images/C. McGrath

مزید یہ کہ قاتل ٹیلیفون کے ذریعے  مسلسل سعودی عرب میں کسی کے ساتھ رابطے میں تھے اور کارروائی کی تمام تفصیلات سے آگاہ کر رہے تھے۔ ترک حکام کو شبہ ہے کہ استنبول میں سعودی قونصل خانے میں موجود افراد ریاض میں خفیہ اداروں اور سرکاری محکموں کے اعلٰی حکام کے ساتھ رابطے میں تھے۔

اس ریکارڈنگ پر مبنی دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خاشقجی کس طرح اپنے قاتلوں سے لڑے اور بعد میں کیسے ایک الیکٹرک آری کی مدد سے ان کی لعش کے ٹکڑے کیے گئے۔ اس دستاویز کے مطابق خاشقجی نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے، ’’مجھے سانس نہیں آرہی‘‘۔ ساتھ ہی اس میں چیخنے چلانے، ہانپنے اور ہچکی لینے کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہیں۔

Türkei, Istanbul: Die Menschen besuchen ein symbolisches Begräbnisgebet für den saudischen Journalisten Jamal Khashoggi im Innenhof der Fatih-Moschee
تصویر: Reuters/M. Sezer

دستاویز کے مطابق اس ریکارڈنگ میں ممکنہ طور پر صالح محمد الطبیقی کی بھی آواز شامل ہے اور وہ کہہ رہے ہیں، ’’اپنے ہیڈ فون پہن لو یا پھر میری طرح موسیقی سنو۔‘‘ الطبیقی سعودی وزارت داخلہ میں فورینسک میڈیسن کے شعبے کے سربراہ ہیں۔

سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو قتل کر دیا گیا تھا۔ تاہم اب اس ریکارڈنگ کے سامنے آنے کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ترک حکام اور امریکی سی آئی اے کو شبہ ہے کہ اس قتل میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں