1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میں نے مضمون نہیں لکھا: تسلیمہ نسرین

2 مارچ 2010

جلا وطنی کی زندگی گزارنے والی متنازعہ بنگلہ دیشی ادیبہ تسلیمہ نسرین نے بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک اخبار میں حال ہی میں چھپنے والے ایک متنازعہ آرٹیکل کو ان کے نام سے منسوب کرنے پر احتجاج کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/MHi2
متنازعہ مصنفہ نسرین پھر خبروں میںتصویر: dpa

متنازعہ مصنفہ نسرین کے بقول مسلم خواتین کے پردے سے متعلق یہ مضمون انہوں نے نہیں لکھا ہے۔ نسرین کے مطابق انہوں نے کرناٹک کے مقامی اخبار کے لئے کبھی کوئی مضمون لکھا ہی نہیں ہے اور یہ کہ کَنڈ زبان کے اخبار نے بلاوجہ ان کا نام استعمال کرکے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔’’میرے نام سے ایسا آرٹیکل شائع ہونا بھیانک اور ہیبت ناک ہے۔‘‘ نسرین نے بھارتی خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ کو بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی یہ نہیں لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام برقعے کے خلاف تھے۔

اس نئے تنازعے کا آغاز ہوا کیسے؟

بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک مقامی اخبار میں جلا وطن بنگلہ دیشی ادیبہ تسلیمہ نسرین سے منسوب ایک مضمون اتوار کے روز شائع ہوا۔ اس آرٹیکل میں مسلم عورتوں کے پردے سے متعلق کچھ ہتک آمیز جملے شامل تھے، جن کے نتیجے میں مقامی مسلم آبادی نے کنَڈ اخبار اور تسلیمہ نسرین کے خلاف احتجاج کیا۔

Indien, Bangalore, IT-Park Electronics City
بھارت میں بنگلور شہر کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز سمجھا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کرناٹک کے شموگا نامی علاقے میں سینکڑوں مسلمانوں نے متنازعہ مضمون کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے کئے۔ شموگا کے علاوہ ایک اور علاقے حسن میں پر تشدد واقعات کے نتیجے میں اب تک دو افراد ہلاک جبکہ پندرہ زخمی ہوچکے ہیں، جس کے بعد ان متاثرہ علاقوں میں زبردست تناوٴ ہے۔

اس حساس معاملے کے پیش نظر ریاستی حکومت نے منگل کو شموگا قصبے میں کرفیو بھی نافذ کر دیا۔ شموگا کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور سے 270 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

جنوبی بھارتی ریاست کرناٹک میں نسرین کے خلاف ایک مظاہرے پر پولیس نے پیر کے روز طاقت کا استعمال بھی کیا، جس سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔ اب تک ریاستی پولیس کم از کم پچاس افراد کو گرفتار بھی کر چکی ہے۔

Britischer Schriftsteller Salman Rushdie Bukarester Buchmesse Gaudeamus
نامور ادیب سلمان رشدی بھی اپنی بعض تصانیف کے باعث متنازعہ رہے ہیںتصویر: DW/Cristian Stefanescu

47 سالہ تسلیمہ نسرین اپنے تبصروں اور مضامین کی وجہ سے کئی بار تنازعات میں گھری رہی ہیں۔ سن 1994ء میں انہیں اپنے وطن بنگلہ دیش کو مجبوراً چھوڑنا پڑا کیونکہ ان کے ناول ’لَجا‘ یا ’شیم‘ کے خلاف مسلم حلقوں کی طرف سے زبردست اعتراضات سامنے آئے۔ اس تنازعے کے بعد نسرین نے دس برسوں تک مغربی یورپ اور امریکہ میں پناہ لی، جس کے بعد سن 2004ء میں بھارتی حکومت نے انہیں عارضی طور پر پناہ دینے کا فیصلہ کیا۔

تسلیمہ نسرین بھارتی ریاست مغربی بنگال گئیں لیکن تین سال بعد ہی یعنی 2007ء میں یہاں بھی ایک اور تنازعے نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نسرین کچھ عرصہ نئی دہلی میں رہیں لیکن 2008ء میں ان کو بھارت سے ہی جانا پڑا۔ تب ہی سے انکا مستقل بنیادوں پر بھارت میں رہنا مشکل ہو گیا کیونکہ انڈیا میں آباد کئی مسلم حلقے چاہتے ہیں کہ حکومت متنازعہ مصنفہ نسرین کو پناہ نہ دے۔

بھارتی حکومت نے نسرین کے عارضی ویزا میں اب چھ ماہ کی توسیع کردی ہے، جس کی معیاد اگست میں ختم ہو رہی ہے۔ تسلیمہ نسرین نے کَنڈ زبان کے اخبار میں پردے سے متعلق مضمون لکھا ہے یا نہیں لیکن متنازعہ مصنفہ ایک بار پھر تنازعے کی شکار ہوگئی ہیں۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: کشور مصطفیٰ