1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا مشکل مرحلہ

23 نومبر 2022

فوج کی طرف سے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو سینئر ترین جرنیلوں کے ناموں کی ایک لسٹ پہنچ چکی ہے۔ اب انہیں انتہائی سنگین سیاسی صورتحال میں فوج کے نئے سربراہ کے انتخاب کا کٹھن ترین فیصلہ کرنا ہے۔

https://p.dw.com/p/4Jwie
Pakistan Shabaz Sharif
تصویر: picture alliance/dpaEPA/PMLN

گزشتہ شب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی ایک پریس ریلیز میں اس امر کا انکشاف کیا گیا کہ فوج کے نئے سربراہ کی تقرری سے متعلق جی ایچ کیو کی ایک سمری وزیر اعظم کے دفتر پہنچا دی گئی اور اس طرح پاکستانی فوج کے نئے چیف کا انتخاب اور اس کا اعلان وزیر اعظم شہباز شریف نے کرنا ہے۔ اس فہرست میں فوج کے چھ سینئر ترین اہلکاروں کے نام شامل ہیں۔ موجوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ 29 نومبر کو عہدہ برا ہو جائیں گے۔ جنرل باجوہ 2016 ء سے 2019 ء تک اس عہدے پر فائض رہے اور 2019 ء میں ان کے عہدے کے میعاد میں توسیع کر دی گئی تھی۔

دریں اثناء پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بُدھ کو ایک ٹویٹ پیغام میں اس امر کی تصدیق کرتے ہوئے تحریر کیا کہ حکومت کو فوج کی طرف سے سمری موصول ہو گئی ہے۔ اس فہرست میں ٹاپ کے چھ جرنیلوں کے نام شامل ہیں، جو زیر غور ہیں اور وہ وزیر اعظم کیساتھ بُدھ کو اس بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔

اس اقدام سے شہباز شریف کی مخلوط حکومت اور پاکستانیفوجکے مابین جنرل باجوہ کے عہدے کی تبدیلی کے ضمن میں پائے جانے والے '' ڈیڈلاک‘‘ سے متعلق کی جانے والی تمام تر قیاس آرائیاں بھی ختم ہوگئی ہیں۔

ناموں کی فہرست

وزیر اعظم کے دفتر پہنچنے والی سمری میں سینیئر ترین چھ لیفٹیننٹ جنرلز کے نام شامل ہیں۔  لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا، لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس، لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کے نام اسی ترتیب سے اُس فہرست میں شامل ہیں، جو وزیراعظم آفس کو موصول ہوئی ہے۔

شریف حکومت کو درپیش چیلنجز

اپریل کے ماہ میں سابق وزیر اعظم اور ملک کے پاپولر سیاسی لیڈر عمران خان کو پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کیساتھ اقتدار سے ہٹا کر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے والے شہباز شریف کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ خان کی طرف سے یہ الزام  عائد کیا گیا کہ ان حکومت کا خاتمہ امریکہ کی پاکستانی فوج کیساتھ ایک سازش کے نتیجے میں ہوا۔

Pakistan Armee Militär Asim Munir
لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کا نام اس فہرست میں سب سے اوپر ہےتصویر: Inter-Services Public Relation Department/AP Photo/AP Photo/picture alliance

 واشنگٹن اور پاکستانی فوج کی طرف سے اس الزام کی تردید کردی گئی تاہم شہباز شریف کی حکومت پر غیرمعمولی دباؤ رہا اور اب تک فوج اور شریف حکومت کے تعلقات پر تنقید اور عمران خان کے خلاف موجودہ حکومت اور فوج کے مبینہ گٹھ جوڑ پر بھی بہت سے حلقوں کی طرف سے اُٹھنے والے سوالات نے شہباز شریف کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی عوام میں فوج کی کم ہوتی مقبولیت اور اس کی ساکھ کو پہچنے والے نقصانات کے اثراتشریف کی مخلوط حکومت پر بھی پڑے ہیں۔

وفاقی حکومت اس وقت کئی اطراف سے دباؤ کا شکار ہے۔ اس میں گزشتہ موسم گرما کے تباہ کُن سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ اب موسم سرما سے پہلے پہلے بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کے لیے رہائش، خوراک اور حفظان صحت کا مناسب بندوبست کرنا ہو گا۔ توانائی کے بحران کے سبب ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان حال عوام کے مسائل بھی بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

 حکومت اتنے زیادہ چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش تو کر رہی ہے تاہم اس میں کس حد تک کامیاب ہو پائے گی یہ ایک کھلا سوال ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ سیلاب کی تباہی کے شکار 33 ملین افراد اپنے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک ہزار سات سو چالیس کے قریب اموات کا سرکاری طور پر اندراج  کیا گیا جبکہ موسمی خرابی اور سیلاب کے سبب ہلاکتوں کی تعداد یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔

عمران خان کا مارچ

28 اکتوبر کو پاکستان کے مشرقی شہر لاہور سے شروع ہونے والا پی ٹی آئی کا مارچ ملکی سیاست اور موجودہ حکومت کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت میں اُس وقت غیر معمولی اضافہ ہوا، جب  ان پر آزادیمارچ کے دوران ایک قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ اس واقعے میں ایک  شہری کی جان بھی گئی اور کئی دیگر افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔

اس کے بعد سے عمران خان کا احتجاجی مارچ اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ خان جلد دوبارہ مارچ کی قیادت کریں گے۔ اب انہوں نے 26 نومبر کو راوالپنڈی میں جلسے کی کال دی ہے۔

کیا پاکستان قبل از وقت انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے؟

ان تمام باتوں کا اثر اس وقت پاکستان کی موجودہ حکومت پر پڑ رہا ہے۔ وہ سخت دباؤ میں ہے۔ فوج کے نئے سربراہ کے لیے بھی آنے والے دنوں میں بڑے چیلنجز کی نشاندہی ہو رہی ہے۔

ک م / ا ا ( اے ایف پی)