نئے یوکرائنی صدر کا باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ
12 جون 2014انہوں نے البتہ واضح الفاظ میں کہا کہ مسلح باغیوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ ادھر باغیوں نے ہتھیار پھینکنے کے حوالے سے کییف حکومت کے اس مطالبے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق باغیوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہو گیا، تو یہ یوکرائن میں قیام عمل کے لیے یہ ایک بڑا قدم ہوگا۔ اس سے قبل فرانس میں پوروشینکو اور روسی صدر ولادیمر پوٹن کے درمیان غیر رسمی بات چیت کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی میں مدد ملے گی۔ رواں ہفتے پوروشینکو نے یوکرائن کے لیے ماسکو کے خصوصی مندوب سے بھی ملاقات کی تھی۔
ہفتے کے روز نئے صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے پوروشینکو کی طرف سے کہا گیا تھا کہ مشرقی یوکرائن میں قیام امن کے لیے ’مختلف فریقوں‘ کے ساتھ گول میز کانفرنس خارج از امکان نہیں۔
پوروشینکو کی ویب سائٹ پر مشرقی یوکرائنی علاقے ڈونیٹسک کے گورنر کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ہم مذاکرات برائے مذاکرات کے حق میں نہیں۔ ہمارا امن منصوبے کا بنیادی مقصد کشیدگی میں کمی اور تنازعے کے خاتمہ ہے۔‘‘
اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’دہشت گردوں کو ہتھیار ہر حال میں گرانا ہوں گے۔‘‘
واضح رہے کہ ڈونیٹسک روس نواز باغیوں کی کارروائیوں کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ یوکرائنی حکومت یہ الزام عائد کرتی ہے کہ ان باغیوں کو روسی پشت پناہی حاصل ہے۔
ادھر بدھ کے روز یورپی یونین کی ایماء پر گیس کے موضوع پر روس اور یوکرائن کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے ہیں۔ روس نے الزام عائد کیا ہے کہ یوکرائنی حکومت ان مذاکرات کو ایک ’ڈیڈ اینڈ‘ کی جانب لے جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ روس دھمکی دے چکا ہے کہ اگر یوکرائن نے روسی گیس کی مد میں اپنے ذمے واجب الادا رقم ادا نہ کی، تو اسے گیس کی سپلائی روک دی جائے گی۔ یہ بات اہم ہے کہ روس یورپی ممالک میں استعمال ہونے والی گیس کا ایک تہائی مہیا کرتا ہے، جس میں سے نصب یوکرائن کے راستے یورپ پہنچتی ہے۔ اس سلسلے میں یوکرائن کا موقف یہ ہے کہ رواں بحران کے دوران روس نے گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے، جو غیر منصفانہ ہے۔