نائب افغان صدر کے خلاف تحقیقات کی جائیں، مغربی ممالک
13 دسمبر 2016آج مغربی ممالک کی طرف سے ایشچی کی رہائی کے بارے میں افغان حکومت کو واضح پیغامات دیے گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر مغربی حکومتوں کے وفود نے افغان حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائیں۔
امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’مبینہ طور پر افغانستان کے نائب صدر کی طرف سے مسٹر ایشچی سے ناروا سلوک اور اس کی غیرقانونی حراست سنگین باعثِ تشویش ہے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’ہم افغان حکومت کے اس اقدام کا خیرمقدم کریں گے کہ ان الزامات کی چھان بین کی جائے۔‘‘ اسی طرح یورپی یونین کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، کینیڈا اور ناورے نے بھی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ان ممالک کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا ہے تو یہ انسانی حقوق کی کُھلی خلاف ورزی اور زیادتی ہے۔
ایک ماہ پہلے نیویارک ٹائمز نے یہ خبر شائع کی تھی کہ افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم نے اپنے ایک مخالف کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اغوا کر لیا ہے۔ یہ واقعہ افغانستان کے شمالی صوبہ جوزجان میں 25 نومبر کو بزکشی کے ایک ٹورنامنٹ کے دوران پیش آیا تھا۔ جوزجان افغانستان کے اول نائب صدر عبدالرشید دوستم کا آبائی صوبہ ہے۔
سابق جنگی سردار عبدالرشید دوستم پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزام عائد کیے جاتے ہیں اور وہ صدر اشرف غنی اور حکومتی سربراہ عبداللہ عبداللہ کی اتحادی حکومت سے کافی نالاں ہیں۔
یاد رہے کہ اغوا کی خبر منظرعام پر آتے ہی دوستم کی طرف سے ایک آن لائن پیغام جاری کیا گیا تھا کہ احمد ایشچی پولیس کی حراست میں تھا۔ دوستم نے افغان حکومت کے ساتھ اتحاد سن 2014ء کو کیا تھا اور اس طرح صدر اشرف غنی ملک میں موجود ازبک نسل کی آبادی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ماضی میں طالبان نے اقتدار میں آکر مختلف جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کر دیا تھا لیکن سن دو ہزار ایک میں طالبان حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ان جنگی سرداروں کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا تھا۔