1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروے حملوں کے ملزم کا اعتراف جرم

24 جولائی 2011

ناروے میں دہشت گردانہ حملوں کے ملزم آندرس بیہرنگ برییوک نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ترانوے افراد کو اکیلے ہی قتل کیا ہے اور اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں تھا۔ دوسری طرف چھ مزید افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/122Xq
تصویر: picture alliance/dpa

ترانوے افراد کو ہلاک جبکہ 97 کو زخمی کرنے والے اس شخص کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اسلحے کا شوقین جبکہ تارکین وطن اور اسلام مخالف ذہن کا مالک ہے۔

برییوک کے وکیل نے ناروے براڈ کاسٹر NRK کو بتایا کہ اُس کے مؤکل نے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور ملزم ان حملوں کے ذریعے ’معاشرے میں تبدیلی‘ لانا چاہتا تھا۔ وکیل صفائی گائر لیپیس ٹیڈ Geir Lippestad کے بقول، ’’ اُس کا ماننا ہے کہ اس نے جو کیا وہ بربریت تھی مگر اس کے خیال میں وہ ضروری بھی تھا۔‘‘ وکیل صفائی کے بقول اس کے مؤکل نے پیر کو عدالت میں اپنے عمل کی وضاحت پیش کرنے کے لیے رضا مندی ظاہر کی ہے۔

دارالحکومت اوسلو میں پولیس ذرائع نے بتایا کہ جمعہ کو حکومتی جماعت کے یوتھ کنونشن پر خودکار ہتھیاروں سے کیے گئے حملے اور دارالحکومت کے وسط میں بم دھماکے سے قبل وہ برییوک کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے تھے۔ فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر وہ کیا عوامل تھے، جن کے تحت اس شخص نے اتنے زیادہ لوگوں کی جان لی۔ پولیس کے مطابق ملزم سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں جبکہ چھ مزید افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اوسلو کے ایک شہری مائیکل ٹومولا، جو برییوک کے ہمراہ سکول جایا کرتا تھا، بتایا کہ وہ ایک اچھا طالب علم تھا مگر بسا اوقات خاموش رہا کرتا تھا۔

Anders Behring Breivik NO FLASH
آندرس بیہرنگ برییوک اسلحے کا شوقین جبکہ تارکین وطن اور اسلام مخالف ذہن کا مالک ہےتصویر: dapd

خبر رساں ادارے روئٹرز کے نمائندے سے بات چیت میں مائیکل ٹومالا نے بتایا، ’’ میں اس حملے پر بہت زیادہ حیرت زدہ ہوں، اُس کے بارے میں میرا بہت اچھا تاثر تھا، اگرچہ وہ اُن معاملات کے بارے میں حالیہ دنوں میں بہت زیادہ شدت پسند ہوگیا تھا، جن معاملات کی وہ بہت فکر کرتا تھا۔‘‘ برییوک کے زیر استعمال کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اس کی مصروفیات کی کھوج سے بھی فوری طور پر کسی منظم دہشت گردانہ سرگرمی کا سراغ نہیں لگ سکا ہے۔ فیس بُک پر اس نے سیاست، سٹاک مارکیٹ اور شکار سے متعلقہ گروپس میں اپنا نام درج کر رکھا تھا۔ 2009ء میں اس نے فیس بُک پر ایک اسلام مخالف ویب سائٹ کے ذریعے اُن یورپی پالیسیوں پر تنقید کی تھی جو اس کے بقول دوسرے ثقافتی ولسانی گروہوں کے انضمام کے حق میں ہیں۔

واضح رہے کہ ناروے میں روایتی طور پر تارکین وطن کے لیے کھلے پن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، تاہم وہاں کی پراگریس پارٹی اس پالیسی کے حق میں نہیں۔ برییوک مختصر عرصے تک پراگریس پارٹی کا رکن رہ چکا ہے۔ جمعہ کو نوجوانوں کے، جس کنونشن پر حملہ کیا گیا تھا وہ لیبر پارٹی کے حامیوں کا تھا، جو تارکین وطن کی حامی خیال کی جاتی ہے۔

برییوک کے متعلق یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ اس کا تعلق freemason گروپ سے بھی ہے، جس کے ارکان دنیا کے بہت سے ملکوں میں خفیہ طور پر ملتے ہیں اور اپنے اہداف کے حصول میں مگن رہتے ہیں۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں