ناکام مسلح بغاوت میں 264 ہلاکتیں، تین ہزار ترک فوجی گرفتار
16 جولائی 2016ملکی فوج کے ایک باغی دھڑے کی طرف سے کی گئی اور اسی فوج کی حکومت نواز اکثریتی قیادت کی طرف سے سختی سے کچل دی جانے والی بغاوت کے قریب بارہ گھنٹے بعد ہفتہ سولہ جولائی کی صبح استنبول سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم انقرہ میں ملکی پارلیمان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر چکے ہیں، جو مقامی وقت کے مطابق ہفتے کی سہ پہر شروع ہو گا۔
ترک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس ناکام بغاوت کے دوران انقرہ میں پارلیمان کی عمارت کو بھی شدید تقصان پہنچا، جس کی وجہ باغی فوجی اہلکاروں کے زیر استعمال جنگی ہیلی کاپٹروں سے کیے جانے والے فضائی حملے بنے۔
ان حملوں اور پھر مسلح بغاوت کے کچل دیے جانے کے بعد سرکاری ٹیلی وژن سے نشر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ان حملوں سے پارلیمان کی عمارت کی متعدد دیواریں گر گئیں اور بہت سی کھڑکیوں کے شیشےٹوٹ گئے۔
ناکام بغاوت کے آغاز پر ترک فوج کے ایک حصے نے متعدد ایف سولہ جنگی طیارے اور جنگی ہیلی کاپٹر اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ صدر رجب طیب ایردوآن کے دفتر کے مطابق یہ بغاوت ’ترک فوج کے اندر ایک گروپ‘ نے کی تھی اور اس کا یہ عمل ’عسکری کمان کے معمول کے طریقہ کار سے باہر‘ تھا۔ صدر ایردوآن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملکی فوج کو ایسے تمام باغی یا باغیانہ سوچ رکھنے والے عناصر سے پاک کر دیا جائے گا۔
اسی دوران ترک نشریاتی اداروں نے یہ بھی بتایا ہے کہ فوجی بغاوت کی اس خونریز کوشش کے دوران کم از کم 264 افراد مارے گئے جبکہ فوج کے قریب تین ہزار اہلکاروں (2839 فوجیوں اور افسران) کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ ان ہلاکتوں کی تصدیق آرمڈ فورسز کے قائم مقام سربراہ جنرل امید دوندار نے کی ہے۔
ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے بقول گرفتار کیے گئے فوجی اہلکاروں میں پانچ جنرل اور کم از کم 29 کرنل بھی شامل ہیں، جنہیں فوج سے برطرف کر کے حراست میں لیا جا چکا ہے۔ وزیر اعظم بن علی یلدرم کے مطابق گزشتہ رات اس ناکام بغاوت کے دوران ایک ایسا فوجی جنرل مارا بھی گیا، جو اس بغاوت کا حصہ تھا۔
انقرہ سے ملنے والی دیگر رپورٹوں کے مطابق ملکی دارالحکومت کے کچھ حصوں سے آج ہفتے کی صبح بھی اکا دکا فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس بغاوت کے پیچھے مرکزی محرک شخصیات کون سی تھیں۔
اس ناکام بغاوت کی بہت سے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور ملک کی چاروں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں صدر ایردوآن اور وزیر اعظم یلدرم کی حکمران پارٹی اور اپوزیشن کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔