1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

نسل کشی کے الزامات، ’جرمنی کٹہرے میں‘

8 اپریل 2024

الزام عائد کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے لیے جرمن حمایت کے سبب نسل کشی کے عالمی کنونشن کی خلاف وزی ہوئی ہے۔ یہ کیس وسطی امریکی ملک نکارا گوا کی طرف سے دائر کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4eXLh
Prüfung Israels Besatzungspolitik am Internationalen Gerichtshof in Den Haag
تصویر: Robin van Lonkhuijsen/ANP/AFP/Getty Images

بتایا گیا ہے کہ دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف جلد ہی اس کیس کی سماعت شروع کر دے گی۔ اس کیس کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔

جرمنی اور اسرائیل سمیت مجموعی طور پر 150 سے زائد ممالک نے اس کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے۔ وسطی امریکہ کا چھوٹا سا ملک نکارا گوا بھی اس کنونشن میں شامل ہے۔

قانونی طور پر اس کنونشن کو تسلیم کرنے والا ہر ملک کسی دوسرے رکن ملک پر اس کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنے کا حق رکھتا ہے۔

نکاراگوا نے یہی حق استعمال کرتے ہوئے یکم مارچ کو دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جرمنی کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جرمنی ہتھیاروں کی فراہمی سمیت اسرائیل کی مسلسل حمایت کی وجہ سے فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی مبینہ نسل کشی کو روکنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس طرح اس نے اس کنونشن اور بین الاقوامی قوانین کے دیگر شقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ آئی سی جے جرمنی کے خلاف 'عارضی اقدامات‘ کرے، جس میں اسرائیل کے لیے اس کی حمایت، خاص طور پر فوجی امداد کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

غزہ تک امداد کيسے پہنچائی جا رہی ہے؟

جرمنی تعاون کے لیے تیار

اسرائیل کے قریبی اتحادی ملک جرمنی نے کہا ہے کہ وہ آئی سی جے کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کرسٹیان واگنر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ برلن حکومت آئی سی جے کی قدر کرتی ہے اور اس کیس میں وہ اپنا دفاع کرے گی۔

واضح رہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے اسرائیلی سرزمین پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں اسرائیلی حکومت کے مطابق کم ازکم بارہ سو افراد ہلاک کر دیے گئے تھے، جن میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو شہری شامل تھے۔ ساتھ ہی یہ عسکری گروہ سینکڑوں افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی لے گیا تھا۔

اس کے جواب میں اسرائیلی دفاع افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کیا تھا۔ اب اس کارروائی کو چھ ماہ کا وقت بیت چکا ہے اور غزہ میں حماس کے طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بتیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران شہری ہلاکتوں کی وجہ سے اب تو امریکہ نے بھی تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اسرائیل پر الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ وہ حماس جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے دوران شہریوں پر بھی حملے کر رہا ہے۔ تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس درصل شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

اس مقدمے میں کتنا وزن ہے؟

آیا اسرائیل 'نسل کشی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے؟ یہ ایک قانونی رائے ہے۔ جنوری میں آئی سی جے نے جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کردہ ایک کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں سے باز رہنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔

نکارا گوا کا کیس دراصل جنوبی افریقہ کے اسی کیس پر انحصار کر رہا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے یہ کیس کچھ زیادہ وزن نہیں رکھتا۔

ٹرنٹی کالج ڈبلن سے وابستہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے پروفیسر مائیکل بیکر کے بقول اس کیس میں ابہام پایا جاتا ہے جبکہ میرٹ پر دیکھا جائے تو اس میں سنجیدہ قسم کے مسائل بھی ہیں۔ ان کے مطابق کورٹ میں یہ کیس ثابت کرنا آسان نہ ہو گا۔

جرمنی اسرائیل کے مضبوط ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے. تنازعات پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کے مطابق سن 2019 سے  سن 2023  کے درمیان امریکہ کے بعد جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔

 

 ولیم نوآ گلوکرافٹ  (ع ب / ک م )

غزہ میں قحط اور بھوک، ’جرمنی خاموش نہیں رہ سکتا‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں