’نفرت انگیز‘ بیان دینے پر جرمن رکن پارلیمان کے خلاف مقدمہ
3 جنوری 2018بی آٹریکس فان شٹورش اپنی انتہائی دائیں بازو کی جماعت (اے ایف ڈی) کے پارلیمانی گروپ کی نائب سربراہ ہیں۔ انہوں نے جرمن شہر کولون کی پولیس کو اس وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ انہوں نے سال نو کے موقع پر عربی زبان میں بھی ٹویٹ کرتے ہوئے مبارکباد دی تھی۔ اس خاتون رکن پارلیمان کا کہنا تھا، ’’اس ملک میں یہ کیا بکواس جاری ہے؟ پولیس کی ایک سرکاری ویب سائٹ سے کیوں عربی زبان میں ٹویٹ کی گئی ہے؟‘‘ انہوں نے تنقید کرتے اور سوال اٹھاتے ہوئے مزید لکھا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ’’گروپوں کی صورت میں جنسی زیادتی کرنے والے مردوں کے جھتے کوئی وحشی نہیں ہیں اور خاص طور پر جب یہ مسلمان ہوں تو بالکل بھی نہیں ہیں۔‘‘ اس خاتون سیاستدان کا اشارہ سن 2015 کے ان واقعات کی طرف تھا، جو سال نو کے موقع پر پیش آئے تھے۔ اس وقت مردوں نے خواتین پر جنسی حملے کیے تھے اور ان میں سے زیادہ تر افراد شمالی افریقی نژاد تھے۔
پارلیمان میں پہنچنے کے لیے اے ایف ڈی کی مسلمان مخالف مہم
کولون پولیس کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’شکایات کے مطابق یہ ٹوئٹس واضح طور پر نفرت اور اشتعال انگیزی کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ بھی کولون شہر کے حکام کو اے ایف ڈی کی اس خاتون کی ٹوئٹس کے خلاف سینکڑوں شکایات موصول ہوئی ہیں۔
دوسری جانب ٹویٹر انتظامیہ کی طرف سے اس خاتون سیاستدان کا اکاؤنٹ بارہ گھنٹوں کے لیے بلاک کر دیا گیا تھا اور نفرت پر مبنی تمام تر ٹوئٹس بھی ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں۔ بی آٹریکس فان شٹورش کی طرف سے یہی پیغامات فیس بک پر بھی پوسٹ کیے گئے تھے، جنہیں نفرت انگیز مواد کے خلاف بنائے گئے جرمن قانون کے تحت وہاں سے بھی ختم دیا گیا ہے۔
جرمنی: مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ
جرمنی میں سوشل میڈیا کے وہ ادارے جو نفرت انگیز مواد کی روک تھام میں ناکام رہتے ہیں، انہیں پچاس سے ساٹھ ملین یورو تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ کولون کی پولیس کے مطابق عربی زبان میں مبارکباد کا پیغام دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ ماضی میں بھی مختلف زبانوں میں ایسا کرتے آئے ہیں، ’’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں سمجھیں۔‘‘ ستمبر کے انتخابات میں اے ایف ڈی کو پارلیمان میں بانوے نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔