نواز شریف حکومت کا مستقبل: دھرنے کی منسوخی کس کی کامیابی؟
2 نومبر 2016پاکستان میں 1988سے 1999تک کوئی جمہوری حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکی تھی۔ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں جیتنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور اقتدار 2013 میں ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہو گیا تھا۔
اب کئی تجزیہ نگار یہ خیال کرتے ہیں کہ نواز شریف حکومت کے لیے اپنی مدت پوری کرنا آج بھی ایک چیلنج ہے۔ اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نواز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی حکومت کی مدت پوری کریں۔ نئے آرمی چیف کا تقرر اور بھارت اور افغانستان سے متعلق پالیسی سمیت کئی ایسے امور ہیں، جن پر نواز شریف کے جی ایچ کیو سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ میرے خیال میں عمران خان نے جو اپنا احتجاج منسوخ کیا ہے، اس میں بھی حکومت کی طرف سے کوئی پیشکش کی گئی ہو گی کہ وہ ’پنڈی والوں‘ کی کچھ امور پر بات مانے گی۔ یہ دھرنا حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے تھا اور ایسا لگتا ہے کہ کچھ معاملات پر حکومت ایک بار پھر پیچھے جائے گی اور ملکی فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز کا کردار بڑھے گا۔‘‘
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ بھی توصیف احمد کے تجزیے سے متفق نظر آتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا احتجاج ناکام ہوگیا ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے دوہزار چودہ میں جو دھرنا کرایا تھا، اس کا مقصد نواز شریف سے داخلی اور خارجہ پالیسی لینا تھا۔ اور اب جو احتجاج کرایا گیا، اس کا مقصد اپنی پسند کا آرمی چیف لانا تھا۔ پارلیمنٹ کی لابیوں میں یہ گفتگو عام ہے کہ نواز شریف اپنی پسند کا آرمی چیف لانا چاہتے تھے، جب کہ جی ایچ کیو کا ارادہ کچھ اور تھا۔ لہٰذا وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے مسئلے پر ہتھیار ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ اسی لیے عمران خان کا یہ احتجاج منسوخ ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نواز شریف کی مشکلات ختم ہوگئی ہیں۔ جب تک غیر جمہوری قوتیں نواز شریف کو بالکل جھکا نہیں دیتیں، تب تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں عثمان کاکڑ نے کہا، ’’اگر نواز شریف پر ذاتی طور پر کوئی برائی آئی تو پارلیمنٹ ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پارلیمانی بالادستی پر سودے بازی کی اور اختیارات کہیں اور منتقل کیے ۔ انہوں نے پارلیمان کا دفاع نہیں کیا۔ لیکن اگر جمہوری نظام کو خطرہ ہوا تو سیاسی جماعتیں اورپارلیمنٹ اس کے دفاع کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔‘‘
دوسری طرف حکمران جماعت نون لیگ کے خیال میں نواز شریف حکومت کا مستقبل تابناک ہے۔ نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے اپنی پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہماری پارٹی کی پالیسی بڑی واضح ہے۔ ہم جلد از جلد ’سی پیک‘ منصوبے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچیں۔ اس کے علاوہ ہماری کوشش ہے کہ اگلے انتخابات سے پہلے توانائی کے متعدد منصوبے بھی مکمل ہوں اور ہم سرخرو ہو کر عوام کے سامنے جائیں اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے دوبارہ ووٹ مانگ سکیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں عظمیٰ بخاری نے کہا، ’’کچھ لوگ ایک اخبار میں چھپنے والی خبر کا سہارا لے کر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ حکومت اور اداروں کے درمیان کو ئی کشیدگی ہے۔ لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ تمام ملکی ادارے اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کر رہے ہیں۔ ہم (حکومت) انشاء اللہ اپنی آئینی مدت پوری کریں گے اور ہمیں اپنا مستقبل تابناک نظر آ رہا ہے۔‘‘
معروف تجزیہ نگار شوکت قادر کے خیال میں حکومت اور فوج کے درمیان تنازعے کی وجہ ایک انگریزی اخبار کو لیک کی جانے والی خبر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک مقامی انگریزی اخبار کو جو خبر پہنچائی گئی، اس کا مقصد فوج کو بدنام کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ میرے خیال میں اس سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گی اور یقیناﹰ فوج چاہے گی کہ اس واقعے کے پیچھے جو کردار ہیں، ان کو بے نقاب کیا جائے کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔‘‘