نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلانِ جنگ
3 جنوری 2018سیاسی مبصرین کے خیال میں اس جنگ کے ملک کی سیاست میں دورس نتائج ہوں گے اور آنے والے وقت میں نون لیگ کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار حبیب اکرم ، جن کی مسلم لیگ نون کی سیاست پر گہری نظر ہے، نے کہا، ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف نے آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ جس ڈان لیکس کا فوج نے بہت برا منایا تھا اور جس کی وجہ سے نواز شریف کو اپنے دو وزیروں کو فارغ کرنا پڑا تھا اور مریم نواز کو الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آج میاں صاحب نے اسی ڈان لیکس کو تسلیم کر لیا ہے کہ انہوں نے اس طرح کی تجاویز دی تھیں کہ جہادی گروپوں کے خلاف کام کیا جائے۔ اس اعتراف پر اسٹیبلشمنٹ یقیناً چراغ پا ہوگی۔ اور اس بات کا امکان ہے کہ جس طرح ماضی میں بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا تھا، بالکل اسی طرح اب نواز شریف کے خلاف بھی ایسی ہی کوئی بات آسکتی ہے۔ تو آنے والے دنوں میں نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔‘‘
پاناما پیپرز میں مذکور سب پاکستانیوں کے خلاف تفتیش کا فیصلہ
ان کے خیال میں اس بات پر شہباز شریف کا ردِ عمل مختلف ہوگا، ’’نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاسی حکمتِ عملی میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ انہوں نے پاناما کے فیصلے پر خاموشی اختیار کی اور جب نواز شریف جی ٹی روڈ پر یہ پوچھ رہے تھے کہ انہیں کیوں نکالا گیا، شہباز شریف اس وقت بھی خاموش رہے۔ اب نواز شریف نے اسلام آباد پہنچ کر اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن شہباز شریف نے کل لاہور میں بیان دیا کہ پوری قوم کو فوج کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔ تو میرے خیال میں شہباز شریف اپنے بھائی کے سخت بیانات اور آج کی پریس کانفرنس کے مندرجات سے بالکل اتفاق نہیں کریں گے۔‘‘
پاکستان: ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے
مسلم لیگ نون کے سابق سینیٹر ظفر علی شاہ کے خیال میں نواز شریف نے اعلانِ جنگ تو کر دیا ہے لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی سختی ہوئی تو میاں صاحب بھاگ جائیں گے، ’’میرے خیال میں یہ اعلان جنگ نیا نہیں ہے بلکہ میاں صاحب نے تو اسی دن اعلانِ جنگ کر دیا تھا جس دن انہیں نااہل قرار دیا گیا تھا۔ فوجی حلقے اس بیان پر چراغ پا ہیں اور نون لیگ کے لئے سختیاں آئیں گی اور میاں صاحب کے اردگرد جتنے لوگ ہیں، یہ سب سختیاں شروع ہونے پر فورا بھاگ جائیں گے۔ میاں صاحب کے بیان سے ملک کا سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوگا، جس کا نقصان ملک اور عوام دونوں کو ہو سکتا ہے۔‘‘
ایک نئے این آر او کی خبریں گرم
لیکن کئی سیاسی مبصرین میاں صاحب کے اس بیان کو اصولی سمجھتے ہیں اور اس بات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ نواز شریف نے جرات کا مظاہرہ کر کے حقائق بیان کیے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکڑ توصیف احمد کے خیال میں نواز شریف مزاحمت کی طرف جا رہے ہیں، جو جمہوریت کے لئے بہتر ہے، ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف نے ایسی کونسی بات کی، جو غلط ہے۔ اس نے پہلے ہی کہا تھا کہ جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ اس کی یہ بات سچ ہوگئی ہے۔ بالکل اسی طرح سیاست میں فوج کی مداخلت سے ملک کو نقصان ہوتا ہے اور آج ہم مداخلت کا ہی خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ تو میرے خیال میں نواز شریف نے بالکل صحیح بات کی ہے اور وہ شاباش کے مستحق ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’جمہوریت کے خلاف آج بھی سازشیں ہو رہی ہیں۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ اس کو ڈی ریل کیا جائے۔ بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت کو ختم کیا جا رہا ہے تا کہ ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو لیکن بین الاقوامی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ملک میں کوئی مارشل لاء لگایا جائے۔ مسلم لیگ نون پر برا وقت آئے گا لیکن انہیں اس کا سامنا کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتیں اسی طرح مضبوط ہوتی ہیں۔‘‘