اب بڑھاپے کی حدوں تک پہنچ جانے والے پاکستانی بھی اپنی پیدائش سے یہی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں یہ 'نازک دور‘ ایسا ہے کہ کبھی ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔
پاکستان کو درپیش بحرانی اقتصادی اور مالیاتی حالات سے لے کر اس جنوبی ایشیائی ملک میں بے روزگاری، صنفی عدم مساوات اور آبادی میں اضافے کی دھماکہ خیز رفتار تک جملہ مسائل میں سے کوئی بھی آج تک اس لیے مستقل طور پر حل نہیں ہوا کہ اس ملک کے حکمرانوں نے اپنی سیاست اور ترجیحات کی بنیاد ہمیشہ صرف 'ایک سے اگلے دن تک کے تسلسل‘ کو ہی بنایا ہے۔
یہ بات آج تک کتنے حکمرانوں نے سوچی ہے کہ آزادی کے وقت اس ملک کی جتنی آبادی تھی وہ اب کہاں پہنچ چکی ہے؟ حالانکہ اپنے آزاد اور خود مختار ریاستی وجود کی اب تک کی عمر کے پہلے آدھے حصے میں ہی یہ ملک آدھا رہ گیا تھا۔ گزشتہ نصف صدی سے بھی زائد عرصے میں موجودہ پاکستان نے سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے بارے میں سوچتے ہوئے خود سے کبھی یہ سوال بھی نہیں پوچھا کہ بنگلہ دیش مسلسل آگے کیسے جاتا جا رہا ہے اور پاکستان مسلسل پیچھے کیوں؟
ایسے بہت سے سوالوں کا جواب شاید یہ ہے کہ پاکستانی پالیسی سازوں نے یا تو صدق دل سے ملکی ترقی کے لیے کوئی طویل المدتی پالیسیاں بنائی ہی نہیں اور اگر کبھی بنائی بھی تھیں تو ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس طرز عمل کا ذمے دار ہمیشہ 'ناگزیر حالات‘ کا ٹھہرایا گیا۔
پاکستان کے بائیس کروڑ سے زائد شہریوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے ملک کو 'اسلام کا قلعہ‘ قرار دے کر اس پر فخر کرتے ہیں۔ انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن یہ بات کیا کسی غیر پاکستانی کو سوچنا ہو گی کہ پاکستان، جو ایٹمی طاقت کا حامل دنیا کا واحد مسلم اکثریتی ملک ہے، گزشتہ کئی برسوں سے اپنے ذمے ادائیگیوں کے قابل نہ رہ جانے کے مسلسل خطرے کا شکار کیوں ہے؟ یہ خطرہ ممکنہ ریاستی دیوالیہ پن ہی کا دوسرا نام ہے۔
کرنسی کی شرح تبادلہ اور اس کی قدر میں مسلسل گراوٹ کو دیکھا جائے تو پاکستانی روپے کا شمار دنیا کی انتہائی کمزور اور عدم استحکام کا شکار کرنسیوں میں ہوتا ہے۔ یورو، پاؤنڈ اور ڈالر کو تو چھوڑیں ماضی میں پاکستانی روپیہ حریف ہمسایہ ملک بھارت کے روپے کے مقابلے میں بھی بہت مضبوط رہا ہے۔ اب لیکن ایک بھارتی روپیہ اوسطاﹰ پونے تین پاکستانی روپوں کے برابر بنتا ہے۔ کیوں؟
پاکستان کی گزشتہ کئی حکومتوں کے اقتدار کے پورے کے پورے عرصے انہی کوششوں میں گزرے کہ زر مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کو سنبھالا دینے اور اپنے ذمے ادائیگیوں کو ممکن بنانے کے لیے عالمی بینک یا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضوں کی اگلی قسط کب ملے گی؟
سن دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی تقریباﹰ 220 ملین کی آبادی میں مردوں کا تناسب 51 فیصد اور عورتوں کا تناسب 49 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک میں سے ایک بھی ہے جہاں ملکی آبادی میں تیس سال سے کم عمر کے شہریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی آبادی میں جتنی زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے اتنی ہی ان میں بے روزگاری بھی زیادہ ہے۔
رہی سہی کسر یہ سماجی رویے پوری کر دیتے ہیں کہ عورت کو چادر اور چار دیواری میں رہنا چاہیے۔ خواتین کو کام نہیں کرنا چاہیے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ عوامی اور حکومتی سطح پر پاکستان کی 100 فیصد آبادی کو درپیش مسائل کو صرف 51 فیصد آبادی یعنی محض مردوں پر انحصار کرتے ہوئے حل کرنے کا سوچا جاتا ہے۔ کوئی بھی یہ منطقی بات نہیں کرتا کہ مسائل کا سامنا اگر پورے ملک یعنی سو فیصد آبادی کو ہے تو ان کے حل کے لیے سو فیصد آبادی ہی اپنا حصہ کیوں نہ ڈالے۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی خواتین اپنی انفرادی، سماجی اور اقتصادی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے ملکی ترقی کے لیے کوشاں نہیں۔ دیہی علاقوں کی عورتوں سے لے کر شہری علاقوں کی خواتین تک، وہ سب اپنی پوری کوشش کرتی ہیں۔ لیکن انہیں ملکی معیشت اور روزگار کی قومی منڈی میں وہ باقاعدہ مقام حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہے۔
پاکستانی معیشت میں خواتین کے کردار کے ناقابل تردید اثرات کو حکومتی اور قومی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے خواتین کو بھی مردوں جتنی ہی اقتصادی پیداواری کارکن بننے کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا؟ پاکستان آج بھی زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی ناخواندہ ہے اور کئی ملین بچے آج بھی حصول تعلیم سے محروم ہیں۔
شہری علاقوں کی جو لڑکیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں ان میں سے بہت سی لڑکیوں کے والدین کا ہدف ان کے لیے اچھے رشتوں کی تلاش ہوتا ہے۔ اگر کوئی تعلیم یافتہ لڑکی کوئی ملازمت شروع کرتی ہے تو شادی کے بعد اکثر وہ بھی چھڑا دی جاتی ہے۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ بچے کی پیدائش کے بعد وہی پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی عورت صرف ایک گھریلو خاتون بن کر بیٹھ جاتی ہے۔ پاکستان کی کوئی پڑھی لکھی خاتون ماں بن جائے تو عام طور پر یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ وہ روزگار کی ملکی منڈی سے بھی نکل گئی۔
پاکستانی حکمران ہر چند ہفتے بعد چند گنے چنے دوست ممالک کے جو دورے کرتے اور ان سے ہر بار چند ارب ڈالر کی جو امداد، قرضے یا مستعار لیا ہوا زر مبادلہ مانگنے جاتے ہیں۔ ان سب سے بھی ملک کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ یہ سب کچھ صرف پلک جھپکنے میں ظاہر ہے نہیں ہو گا۔ سفر اگر بہت طویل بھی ہو گا تو بھی کوئی تو پہلا قدم اٹھائے۔
پاکستان اگر صرف اپنی افرادی قوت کو ہی مناسب روزگار مہیا کرتے ہوئے ملکی خواتین کی صورت میں اپنے پاس موجود انسانی وسائل کو بھی پوری طرح استعمال کرنا شروع کر دے تو مستقبل میں اس واحد مسلم اکثریتی ایٹمی طاقت کو اپنے دیوالیہ پن کا کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ بے روزگاری کا جن بھی پوری طرح بوتل میں بند ہو جائے گا۔ یوں ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ قومی کرنسی بھی مضبوط ہو گی اور چند ہی برسوں میں ملک کی مجموعی اقتصادی پیداوار بھی دو گنا ہو سکتی ہے۔
پچھلی کئی دہائیوں میں تو فوجی اور سول حکمرانوں کے صرف چہرے ہی بدلتے رہے اور ایسا کوئی رہنما سامنے نہیں آیا۔ اسی لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو درپیش 'نازک دور‘ بھی ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔