نوجوان کا ’قتل‘، رینجرز کے مزید چار اہلکار زیرحراست
12 جون 2011اس سے قبل رینجرز نے دو اہلکاروں شاہد ظفر اور محمد افضل کو پانچ روزہ ریمانڈ پر جمعہ کے روز پولیس کے حوالے کیا تھا۔ سندھ رینجرز کے یہ چھ اہلکار اس ویڈیو فوٹیج میں نظر آ رہے تھے، جس میں کراچی کے علاقے بوٹ بیسن میں واقع بے نظیر بھٹو پارک کے باہر پہلے تو ایک سادہ کپڑوں میں ملبوس شخص ایک نوجوان کو بالوں سے گھسیٹتا ہوا رینجرز کے اہلکاروں کی طرف دھکیلتا ہے اور پھر زندگی کی بھیک مانگنے والے اس نوجوان کو رینجرز اہلکار گولیوں کا نشانہ بنانے کے بعد سڑک پر تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں۔ زخمی حالت میں بھی اس نوجوان نے ہسپتال پہنچانے کی درخواست کی مگر رینجرز اہلکاروں نے اس کی ایک نہ سنی اور اس وقت تک اسے خون میں لت پت تڑپتا دیکھا گیا، جب تک اس نوجوان نے جان نہ دے دی۔ اس واقعے کو ملک کے تمام ٹی چینلز پر بار بار نشر کیا گیا، جس کے بعد پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے، سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور سندھ پولیس کے آئی جی کی برطرفی کا حکم سنایا تھا۔
ابتدا میں رینجرز اور پولیس نے اس نوجوان کو ڈاکو قرار دیا تھا تاہم اس نوجوان کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ لوڈ شیڈنگ سے تنگ یہ نوجوان پارک میں وقت گزارنے پہنچا تھا۔
سندھ رینجرز کے ترجمان فاروق بلال نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان مزید چار اہلکاروں کو پولیس کے حوالے کرنے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان چاروں اہلکاروں کے نام بعد میں میڈیا کو دئے جائیں گے۔ ان کے بقول، ’’یہ چاروں رینجر اہلکار درخواست کی وصولی کے بعد پولیس کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔‘‘
پولیس نے اس سے قبل کہا تھا کہ فوٹیج میں مقتول سرفراز شاہ کو بالوں سے پکڑ کر رینجرز اہلکاروں کے حوالے کرنے والے افسر خان کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس شخص نے بعد میں مقتول سرفراز شاہ کے خلاف رہزنی کے الزام کے تحت مقدمہ بھی دائر کروایا تھا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف