نو عمر آرمیتا کی ہلاکت سے ایران میں نئے مظاہروں کا اندیشہ
28 اکتوبر 2023سولہ سالہ آرمیتا گراوند ایرانی اخلاقی پولیس کے ایک مبینہ حملے کے بعد کومے میں چلی گئی تھیں۔ یکم اکتوبر کو تہران کے ایک میٹرو اسٹیشن پر اخلاقی پولیس کے محکمے سے وابستہ کچھ خواتین افسران نے آرمیتا کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
تب آرمیتا نے حجاب نہیں پہنا ہوا تھا، اس لیے پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر ان کے ساتھ زبردستی کی، جس کی وجہ سے آرمیتا گر گئیں اور ان کے سر پر چوٹیں آئیں۔
ایرانی پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے آرمیتا سے کوئی زبردستی نہیں کی تھی۔ پولیس بیان کے مطابق آرمیتا فشار خون میں کمی کی وجہ سے چکرا کر گری تھیں۔
تین اکتوبر کو جاری کردہ آرمیتا کی میڈیکل رپورٹ میں انہیں دماغی طور پر مفلوج قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ بات پہلے سے ہی معلوم تھی کہ وہ زندہ نہیں بچ سکیں گی۔ ان کا تعلق بھی کرد نسل سے ہے۔
یاد رہے کہ ستمبر سن دو ہزار بائیس میں مہسا امینی کی زیر حراست ہلاکت پر ایران بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ یہ واقعہ بھی ایسا ہی تھا، کیونکہ اخلاقی پولیس نے اس کرد خاتون کو بھی ڈریس کوڈ کی وجہ سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
پرسرار حالات میں ہلاکت
یکم اکتوبر کو تہران کے ایک میٹرو اسٹیشن پر کیا ہوا؟ یہ ایک معمہ ہے۔ اس دن آرمیتا بغیر حجاب سفر کر رہی تھیں، جب مبینہ طور پر اخلاقی پولیس نے انہیں روکا۔
اس بارے میں اتفاق ہے کہ وہ گر گئی تھیں اور بے حوشی کی حالت میں تہران کے فجر ہسپتال منتقل کی گئیں۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ کیا حالات تھے، جن کی وجہ سے آرمیتا گری تھیں۔
انسانی حقوق کے ادارے حکومتی بیان سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ یہ لڑکی دراصل اخلاقی پولیس کی اہلکاروں کے حملے کے نتیجے میں زخمی ہوئی تھیں۔
مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کا ایک آزاد تحقیقاتی پینل چھان بین کرے اور حقائق سامنے لائے کہ آرمیتا کس طرح زخمی ہوئی تھیں۔
انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ تہران کے ہر میٹرو پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں اور یہ جاننا مشکل نہیں کہ یکم اکتوبر کو آرمیتا کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ایسے خدشات ہیں کہ حجاب نہ پہننے کی وجہ سے خواتین پولیس اہلکاروں نے آرمیتا کو دھکا دیا ہو۔
گزشتہ اٹھائیس دنوں سے ایران کا میڈیا اس واقعے کو ایک حادثہ ہی قرار دے رہا ہے تاہم اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں۔ تہران حکومت کو یہ خوف بھی ہے کہ اس سولہ سالہ لڑکی کی موت کے بعد ایک بار پھر ایران میں ویسے ہی ملک گیر مظاہرے شروع ہو سکتے ہیں، جیسے مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ مہسا امینی بائیس ستمبر سن 2022 کو ہلاک ہوئی تھیں۔
ع ب / ک م (خبر رساں ادارے)