نیندر تھال مشرقی عم زاد بھی رکھتے تھے، نئی جین سٹڈی
24 دسمبر 2010اس قدیم انسانی نسل کو ڈینی سووانز (Denisovans) کا نام دیا گیا ہے اور ماہرین کے مطابق یہ نسل آج سے قریب 30 ہزار برس قبل زندہ تھی۔ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نسل کے انسانوں کے ڈی این اے کا ایک بڑا حصہ بحرالکاہل کے جزائر پر ابھی تک آباد جدید میلانیزین نسل کے انسانوں میں بھی موجود ہے۔ ماہرین کی یہ رپورٹ معروف سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں جمعرات 23 دسمبر کو شائع ہوئی۔
یہ نتائج بوسٹن میں قائم ہاورڈ میڈیکل سکول کے پروفیسر ڈیوڈ رِیش اور جرمن شہر لائپزگ میں ارتقائی بشریات کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے سوانتے پابو کی زیر سربراہی کام کرنے والی محققین کی ایک ٹیم کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں۔ اسی ٹیم نے گزشتہ مارچ میں ایک غار سے ملنے والی ایک انگلی کے ڈی این اے کے تجزیے سے ایک ایسی قدیم انسانی نسل کا پتہ بھی لگایا تھا، جو تب تک نامعلوم تھی۔
اس ٹیم نے سائبیریا سے ملنے والی پانچ سے 10 سال کے درمیان عمرکی لڑکی کی جسمانی باقیات سے حاصل کئے گئے ڈی این اے کا تجزیہ کیا۔ اس تحقیق کے بعد اب شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’نیوکلیائی جینوم کے تجزیے سے اندازہ ہوا ہے کہ ڈینی سووا آبادی دراصل نیندرتھال نسل کی رشتہ دار ہے۔‘‘
اس ٹیم نے ڈینی سووا لڑکی کے ڈی این اے کا موازنہ موجودہ انسانی نسلوں سے بھی کیا ہے۔ جینیاتی علوم کے ماہر پروفیسر ڈیوڈ رِیش کے مطابق، ’’یہ پاپوا نیوگنی کے جزائر پر آباد موجودہ انسانوں کے اجداد ہیں، تاہم ان کا یورپ اور ایشیا میں پائے جانے والے زیادہ تر انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
اس سے قبل رواں برس مئی میں جرمن سائنسدانوں نے نیندر تھال نسل کے جینز پر تحقیق کے بعد کہا تھا کہ اس نسل کے جینز ابھی بھی یورپ، چین اور نیوگنی میں رہنے والے ایک تا چار فیصد انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس تحقیق سے پہلے تک اس بارے میں کی جانے والی جملہ ریسرچ کے بعد بھی ایسی کوئی نسبت تلاش نہیں کی جا سکی تھی۔
سوانتے پابو کی سربراہی میں جرمن شہر لائپزگ کے ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں بشری ارتقاء کے ماہر سائنسدانوں کی طرف سے نیندرتھال نسل کے جینز پر ریسرچ کے دوران یہ دلچسپ امر بھی سامنے آیا کہ چین میں بھی ایسے انسان بستے ہیں، جن میں نیندر تھال انسانوں کے جینز پائے جاتے ہیں۔ تاہم اب تک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ نسل کبھی چین میں بھی رہی ہوگی۔
اب تک انسانوں کی نیندر تھال نامی قدیم نسل کی باقیات یورپ اور ایشیا کے تین سو مختلف علاقوں سے مل چکی ہیں۔ پہلی مرتبہ سن 1856ء میں مغربی جرمن شہر ڈسلڈورف کے نواح میں واقع نیندر تھال نامی ایک وادی میں کھدائی کے دوران اس نسل کے افراد کی ہڈیاں ملی تھیں۔ اسی لئے اس نسل انسانی کا نام نیندر تھال ہی رکھ دیا گیا تھا۔
سائنسدان کافی عرصے سے یہ اندازے لگا رہے تھے کہ انسانوں کی مختلف نسلیں دس لاکھ سال پہلے سے مختلف ادوار میں مختلف مقامات پر موجود رہی ہیں۔ مگر ان کی یہ آبادیاں چونکہ زیادہ تر گرم علاقوں میں تھیں، لہٰذا ان قدیم انسانوں کی ہڈیاں محفوظ رہنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
23 دسمبر کوسامنے آنے والے تحقیقی نتائج سے ان نظریات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ موجودہ انسانوں سے ملتی جلتی بہت سی انسانی نسلیں کبھی نہ کبھی موجود رہی ہوں گی تاہم ان کی تلاش کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک