’نیند اہم ہے، اسے ہلکا نہ لیں‘
7 مئی 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ یونیورسٹی آف مشی گن نے دنیا بھر میں پائے جانے والے نیند کے رحجانات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس رپورٹ کو ترتیب دیا ہے۔ موبائل فون کی ایک ایپلیکیشن کی مدد سے معلومات جمع کی گئی ہیں کہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر کتنی دیر سوتے ہیں اور ان کے جلد یا دیر سے سونے میں کیا قباحتیں حائل ہوتی ہیں۔
اس رسرچ میں سو سے زائد ممالک کے باشندوں کو اعدادوشمار جمع کیے گئے، جن میں عمر اور جنس کے علاوہ ان کی قدرتی روشنی میں کام کرنے کے اوقات کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس مطالعے کے نتائج کے تجزیے سے ’نیند کے عالمی بحران‘ پر قابو پانے میں مدد مل سکے گی۔
سائنس ایڈوانسز نامی جرنل میں جمعے کے دن شائع کی جانے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’سماجی سطح پر پائے جانے والے عوامل نیند پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، اس بارے میں ابھی تک کوئی معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ اس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل پریشر نیند کو کم کرنے یا نیند کے حیاتیاتی محرکات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘ اس رپورٹ کے مطابق لوگ بستر میں سونے کی خاطر کب جاتے ہیں، اس بات سے نیند سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
اس معلوماتی رپورٹ کے مطابق درمیانی عمر کے لوگوں کی نیند سب سے کم ہوتی ہے۔ یعنی وہ طبی طور پر تجویز کردہ یعنی سات یا آٹھ گھنٹوں سے کم سوتے ہیں۔ اس اسٹڈی کی خاطر سائنسدانوں نے تقریبا چھ ہزار ایسے افراد سے معلومات جمع کی ہیں، جن کی عمریں پندرہ برس سے زائد ہیں۔ ان لوگوں نے رضا مندی سے اپنے ممالک اور ٹائم زون کی نشاندہی بھی کی اور اپنی سونے کی عادات کے بارے میں معلومات بھی فراہم کیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ڈچ لوگ جاپان اور سنگار پور کے لوگوں کے مقابلے میں ایک گھنٹہ زیادہ سوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر خواتین مردوں سے آدھ گھنٹہ زیادہ سوتی ہیں۔ بالخصوص ایسی خواتین، جن کی عمریں تیس اور ساٹھ برس کے درمیان ہوتی ہیں۔
اس مطالعے کے نتائج کے مطابق ایسے افراد جن کو نیند کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی وقوفی صلاحتوں میں ایک غیر محسوس طریقے سے کمی واقع ہو سکتی ہے، ’’نیند سے محرومی یا اس میں کمی سے انسانی زندگی کو سخت خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘‘
ادارہ برائے تشخیص امراض و تدابیر CDC کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکا میں ہر تین میں سے ایک بالغ تجویز کردہ یعنی سات گھںٹے سے کم نیند لیتا ہے۔ اس ادارے کے مطابق بے خوابی کی مستقل کمی کے باعث موٹاپا، ذیابیطس، بلند فشار خون اور دل کی بیماریوں کے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔