نیویارک کار بم حملہ: ایک پاکستانی میجر گرفتار
20 مئی 2010امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے پاکستانی سیکیورٹی حکام کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ میں سے کسی کی گرفتاری کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ اس سے قبل وفاقی امریکی تحقیقاتی ادارے کے اہلکار امریکہ کی شمال مشرقی ریاستوں سے تین پاکستانی شہریوں کو گرفتار کر چکے ہیں۔ ان تینوں پر براہِ راست دہشت گردی کا نہیں بلکہ نیویارک کار بم حملے کی ناکام کوشش کے مرکزی ملزم فیصل شہزاد کی مالی معاونت کا الزام لگایا گیا ہے۔
تیس سالہ فیصل شہزاد کے والد خود بھی پاکستانی فضائیہ میں ایئر مارشل رہے ہیں۔ فیصل کو منگل کے دن پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس پاکستانی نژاد امریکی شہری پر الزام ہے کہ اس نے دہشت گردی کی نیت سے ایک گاڑی میں بارود بھر کر ہفتہ یکم مئی کی شام نیویارک کے چہل پہل والے تھئیٹر ڈسٹرکٹ میں کھڑی کی اور خود دبئی فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں کہ پاکستانی فوج کا گرفتار شدہ میجر کس حد تک اس واقعے میں ملوث تھا۔ تاہم اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ اس کا فیصل سے موبائل پر رابطہ تھا اور دونوں کی اسلام آباد میں ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق ایک اور شخص، جو پاکستانی حکام کی حراست میں ہے، فیصل اور پاکستانی طالبان کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتا تھا۔ امریکی حکام باضابطہ طور پر نیویارک میں کار بم دھماکے کی کوشش کا الزام پاکستانی طالبان پر عائد کر چکے ہیں۔
دریں اثناء امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز اور مرکزی تحقیقاتی ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینیٹا نے اسلام آباد میں پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر دفاع چوہدری احمد مختار اور فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ملاقات کے بعد جاری مشترکہ بیان کے مطابق امریکی عہدیداروں نے پاکستانی صدر کو نیویارک کے واقعے کی تحقیقات میں پیشرفت سے آگاہ کیا۔ بیان کے مطابق:’’پاکستان اور امریکہ دہشت گردی کے ہر منصوبے اور ہر کارروائی کو ناکام بنانے کے چیلنج کو سمجھتے ہیں، دونوں نے ایک دوسرے سے تعاون بڑھانے، دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششوں میں تیزی لانے اور وہ تمام ممکنہ اقدامات کرنے کا اعادہ کیا ہے، جن سے اپنے اپنے شہریوں کا تحفظ کیا جا سکے۔‘‘
ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق فیصل شہزاد اپنے اقراری بیان میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہیں وزیرستان میں بم بنانے کی تربیت دی گئی تھی۔ ادھر پاکستانی فوج نے بدھ کو قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں تازہ کارروائیوں کے نتیجے میں مزید 28 مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنے دو فوجیوں کی ہلاکت تسلیم کی ہے۔ اورکزئی میں گزشتہ چند ہفتوں سے فوجی آپریشن جاری ہے۔
بدامنی کے سبب علاقے سے ہزاروں افراد نقل مکانی کر کے ہنگو، کوہاٹ اور پشاور میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ عسکری ذرائع کے مطابق امریکہ قندہار میں طالبان کے خلاف رواں سال فیصلہ کن کارروائی سے قبل عسکریت پسندوں کی سرحد پار سے آمد کا امکان کم سے کم کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے بقول اسی لئے اُن کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں بھی فوجی کارروائی شروع کی جائے۔ عسکری ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج کا موقف یہ ہے کہ اس سے اورکزئی ایجنسی میں جاری حالیہ کارروائیوں پر اثر پڑسکتا ہے اور عسکریت پسندوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت:امجد علی