نیٹو سمٹ، یوکرائن بحران اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ بنیادی ایجنڈا
4 ستمبر 2014ویلز میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اجلاس میں عالمی رہنما کییف حکومت کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے اس تنازعے کے فریق ملک روس کے خلاف سخت حکمت عملی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما اور نیٹو رکن ممالک کے دیگر رہنما اس دوران عراق اور شام میں فعال شدت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے بھی کچھ اہم فیصلے کر سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ پولینڈ سمیت متعدد مشرقی یورپی ممالک نے نیٹو سے درخواست کی ہے کہ یوکرائن تنازعے کے تناظر میں روس کی ممکنہ ’جارحیت‘ کو روکنے کے لیے ان علاقوں میں مستقل بنیادوں پر ہزاروں کی تعداد میں فوجی تعینات کر دیے جائیں۔ تاہم نیٹو حکام نے اس تجویز پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس کی وجہ نہ صرف مالیاتی مسائل ہیں بلکہ انتظامی حوالوں سے بھی یہ کوئی مناسب تجویز نہیں ہے۔
ادھر اس سمٹ کے آغاز سے ایک روز قبل روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے مشرقی یوکرائن میں مستقل فائر بندی کے لیے ایک منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو نے بھی کہا ہے کہ وہ اور روسی صدر فائر بندی کے ایک منصوبے پر متفق ہو گئے ہیں۔ روسی صدر کے اس منصوبے پر کییف حکومت اور باغی جمعے کے دن غور کریں گے۔
دوسری طرف یوکرائن کے وزیراعظم آرسینی یاٹسینی یُک نے مشرقی یوکرائن میں روس کی طرف سے کیے گئے فائر بندی کے معاہدے پر شک کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن دراصل اس کوشش سے یورپ کو دھوکا دیتے ہوئے نئی پابندیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔
قبل ازیں امریکی صدر باراک اوباما نے ویلز پہنچنے سے پہلے اپنے دورہ ایسٹونیا کے دوران بالٹک ریاستوں کے رہنماؤں سے اپنی ملاقات میں انہیں یقین دلایا کہ واشنگٹن حکومت ان کے ساتھ ہے۔
یوکرائن تنازعے کے حوالے سے ان ریاستوں کو روسی ’جارحیت‘ کا خوف ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ماضی میں سابق سوویت یونین کا حصہ یہ ریاستیں اب مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکن ہیں۔ اس لیے اس مخصوص وقت میں صدر اوباما کی طرف سے ایسٹونیا میں ان ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کو علامتی حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے۔
اسی اثناء فرانسیسی صدر کی طرف سے جاری گئے ایک بیان میں تصدیق کر دی گئی ہے کہ پیرس حکومت نے روس کو دو جنگی بحری جہاز فراہم کرنے کی ڈیل کو مؤخر کر دیا ہے۔ بیان کے مطابق روس کو دو جنگی بحری جہازوں کی فراہمی سردست روک دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نومبر میں اس ڈیل پر دوبارہ غور کی جائے گا۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے یوکرائن تنازعے میں ماسکو حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یوکرائن کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ جہاز روس کو فراہم نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ 1.2 بلین یورو مالیت کی یہ ڈیل 2011ء میں فائنل کی گئی تھی۔
دوسری طرف ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ فرانس کی طرف سے یہ جنگی بحری جہاز فراہم نہ کرنے کے باعث وہ اپنے عسکری شعبے میں اصلاحات کا منصوبہ ترک نہیں کرے گا۔