نیٹو نے دوران حملہ فائرنگ روکنے کی اپیل نظر انداز کر دی، پاکستان
28 نومبر 2011پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق دو مختلف چیک پوسٹوں پر پاکستانی فوجی کسی اشتعال انگیزی کے بغیر نیٹو حملے کا نشانہ بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیٹو حملہ قریب دو گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران مقامی کمانڈروں نے نیٹو کمانڈرز کے ساتھ رابطہ کرکے بار بار حملہ روکنے کو کہا، مگر اس کے باوجود یہ حملہ جاری رہا۔
پاکستانی فوجی ترجمان نے اس موقع پر افغانستان کے اس دعوے کی بھی نفی کی کہ افغان اور نیٹو کے فوجیوں پر پہلے فائرنگ کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نیٹو اور افغانستان کی طرف سے اس واقعے کی ذمہ داری سے بچنے کے لیے محض عذر تراشی ہے۔ عباس کا کہنا تھا کہ اگر فائرنگ ہوتی تو اس کے نتیجے میں جانی نقصان بھی ہوتا۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے ہفتے کو ہونے والے اس واقعے میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی پوری تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ اتحادی فوج کی طرف سےابھی اس واقعے کے بارے میں باقاعدہ طور پر بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم ایک افغان اہلکار نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، دعویٰ کیا تھا کہ افغان اور نیٹو کی مشترکہ افواج پر پاکستانی چیک پوسٹوں کی طرف سے فائرنگ کی گئی تھی، جس کے جواب میں فضائی مدد طلب کی گئی۔
امریکی جریدے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے علاوہ برطانوی اخبار 'گارڈیئن‘ نے مختلف حوالوں سے بتایا تھا کہ بھی اسی نوعیت کی ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں افغان حکومت کے تین عہدیداروں اور ایک مغربی عہدیدار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان عہدیداروں کے مطابق نیٹو کی فضائی مدد اس لیے طلب کی گئی تھی تاکہ بین الاقوامی افواج کو طالبان کے حملوں سے بچایا جا سکے۔ مغربی عہدیدار کے مطابق یہ فائرنگ پاکستان کے فوجی ٹھکانے سے کی گئی تھی۔ ان عہدیداروں کا کہنا کہ انہیں اندیشہ ہے کہ فائرنگ طالبان کی جانب سے نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی جانب سے کی گئی تھی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کے مطابق حملوں کا نشانہ بننے والی وولکانو اور گولڈن نامی دونوں چیک پوسٹیں مہمند ایجسنی کے علاقے میں افغان بارڈر سے قریب 300 میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان چیک پوسٹوں کی درست لوکیشن نیٹو افواج کو فراہم کی جا چکی ہے۔ مزید یہ کہ اس علاقے کو حال میں شدت پسندوں سے پاک کیا جا چکا ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: عدنان اسحاق