1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

نیٹو کو یوکرین پر حملہ آور روسی ڈرونز مار گرانا چاہییں؟

12 ستمبر 2024

حالیہ دنوں میں روس کی جانب سے نیٹو کے رکن ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں نیٹو کا کیا ردعمل ہونا چاہیے؟

https://p.dw.com/p/4kY0D
ایک ڈرون کی تصویر
ایک ڈرون کی تصویرتصویر: Middle East Images/picture alliance

آٹھ ستمبر علی الصبح دو ایف سولہ جنگی طیاروں نے یوکرین کی سرحد کے قریب رومانیہ کے علاقے بورچا کے ایک ہوائی اڈے سے پرواز بھری اور اسی دوران اس علاقے کے رہائشیوں کو ٹیکسٹ الرٹ کے ذریعے ایک بیرونی فضائی حملے کے ممکنہ خطرے سے متنبہ کیا گیا۔

یہ دراصل رومانیہ کے ریڈار سرویلنس سسٹم پر ایک روسی ڈرون کو ملک کی فضائی حدود میں ٹریک کیے جانے کے بعد ہنگامی ردعمل تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ ڈرون رومانیہ کی فضائی حدود میں تیس منٹ سے زیادہ وقت کے لیے موجود رہنے کے بعد یوکرین کی جانب چلا گیا تھا۔

تاہم یہ رومانیہ یا نیٹو کے کسی رکن ملک میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے ایک دن قبل ہی لیٹویا میں بھی ایک روسی ڈرون گر کر تباہ ہوا تھا اور پچھلے چار ہفتوں میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

اس حوالے سے نیٹو کے سابق اہلکار جیمی شیا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ، ''صورتحال بدتر ہوتی جا رہی ہے‘‘ اور نیٹو کو اب اس کا حل نکالنا ہو گا۔

شیا نیٹو میں سکیورٹی چیلنجز کے شعبے کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل تھے اور اب 'فرینڈز فار یورپ' نامی ایک تھنک ٹینک سے وابستہ ہیں۔

ان کا اس بات پر زور ہے کہ نیٹو اپنے رکن ممالک کو زیادہ تحفظ فراہم کرے۔  اپنے طور نیٹو نے 2022ء میں روس اور یوکرین کے مابین جنگ کے آغاز کے بعد سے اپنے رکن ممالک کے ہر ایک انچ کے تحفظ کا عہد کیا ہے۔ اس نے روس کی جانب سے حالیہ دنوں میں فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ''غیر ذمہ دارانہ اور ممکنہ طور پر خطرناک‘‘ بھی قرار دیا۔

برسلز میں نیٹو کا ہیڈکوارٹر
برسلز میں نیٹو کا ہیڈکوارٹرتصویر: Janine Schmitz/AA/photothek.de/picture alliance

فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کے مقاصد کیا؟

امریکہ میں قائم سینٹر فار یورپین پالیسی اینالیسس سے وابستہ ماہر جان کالبرگ کا خیال ہے کہ اس طرح کی خلاف ورزیوں سے روس شاید اس بات کا اندازہ لگانا چاہتا ہے کہ ان پر نیٹو کا کیا ردعمل آتا ہے اور اس حوالے سے اس فوجی اتحاد کے قول اور فعل میں کس قدر تضاد ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ روس شاید نیٹو کے رکن ممالک کی مواصلاتی صلاحیت کا اندازہ بھی لگانا چاہتا ہے۔

اس موضوع پر اس ہفتے برسلز میں نارتھ اٹلانٹک کونسل کے ایک اجلاس کے دوران بھی بات چیت ہوئی تھی اور اب یہ بھی معلوم ہوتا کہ نیٹو پر اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

ڈرون کو مار گرائیں؟

تو کیا نیٹو کو فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے روسی ڈرونز کو مار گرانا چاہیے؟

برطانوی اخبار فناشل ٹائمز کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں پولش وزیر خارجہ رادیک سیکورسکی نے کہا تھا کہ پولینڈ اور یوکرین کی سرحد کے قریب واقع دیگر ممالک کا "فرض" ہے کہ وہ اپنی طرف آتے ہوئے روسی میزائلوں کو اپنی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے مار گرائیں۔

ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے پولینڈ ایسا کر سکتا ہے لیکن یہ عین ممکن ہے کہ نیٹو میں اس فیصلے پر اتفاق کے بغیر وہ ایسا نہیں کرے گا اور اب تک نیٹو نے یہ تجویز مسترد کی ہے۔ اس فوجی اتحاد کی قیادت کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے اقدام سے نیٹو کے روس اور یوکرین کے مابین تنازعے میں شمولیت کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔

یوکرین پر جون میں ہونے والے ایک روسی میزائل حملے کا منظر
یوکرین پر جون میں ہونے والے ایک روسی میزائل حملے کا منظرتصویر: Artur Abramiv/Zuma/picture alliance

فضائی دفاعی نظام کی توسیع ایک حل؟

جرمن  تھنک ٹینک مارشل فنڈ سے وابستہ سکیورٹی پالیسی کی ماہر کرسٹینا برزینا کہتی ہیں کہ موجودہ صورتحال میں پولینڈ اور رومانیہ کے فضائی دفاعی نظام کو مغربی یوکرین تک وسعت دینا نہ صرف ان دونوں ممالک کے شہریوں بلکہ یوکرین کے شہروں کی حفاظت کے لیے بھی معاون ثابت ہو گا۔

یہ اس وقت اور بھی زیادہ اہم اس لیے ہو سکتا ہے کیونکہ اب سردیوں کی آمد ہے اور دیکھا گیا ہے کہ اس موسم میں یوکرین میں توانائی کے انفراسٹرکچر پر روسی حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

جیمی شیا بھی روس کی جانب سے نیٹو کے رکن ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کے واقعات بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے تنبیہ کی کہ اگر نیٹو ممالک کے فضائی دفاعی نظام کے دائرہ کار کو یوکرین تک وسعت دی جاتی ہے، تو یہ محدود حد تک ہی کیا جانا چاہیے ورنہ یہ تاثر ملے گا کہ یہ "مغرب کی اس جنگ میں شمولیت کا آغاز ہے۔"

الیکسانڈرا فان ناہمن (م ا / ش خ)