نیٹو کیا ہے اور اسے کیوں بنایا گیا؟
8 فروری 2022نیٹو، نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن دوسری عالمی جنگ کے بعد سن 1949 میں اس مقصد کے ساتھ قائم کی گئی تھی کہ یہ سوویت یونین کی یورپ کی جانب توسیع کے خطرے کو روکے گی۔ اس کے علاوہ امریکا نے اسے یورپ میں قوم پرستانہ رجحانات کی بحالی کو روکنے اور اس براعظم میں سیاسی انضمام کو فروغ دینے کے ایک آلے کے طور پر دیکھا۔
تاہم اس مغربی دفاعی اتحاد کی جڑیں سن 1947ء کے فرانس اور برطانیہ کے اس ڈنکرک معاہدے سے جا ملتی ہیں، جس کا ابتدائی مقصد جرمنی کے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں اس کا مل کر مقابلہ کرنا تھا۔ اس سیاسی اور فوجی اتحاد کے اصل 12 بانی ارکان امریکا، برطانیہ، بیلجیم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، نیدرلینڈز، ناروے اور پرتگال ہیں۔
اجتماعی سکیورٹی
اس تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کسی رکن ریاست کو کسی بیرونی ملک سے خطرہ لاحق ہو تو اسے فوجی اور سیاسی ذرائع سے باہمی دفاع فراہم کیا جائے۔ کسی بھی ملک کے اجتماعی دفاع کی شق چارٹر کے آرٹیکل نمبر پانچ میں رکھی گئی ہے۔ آرٹیکل نمبر پانچ کو ابھی تک صرف ایک مرتبہ ہی استعمال کیا گیا ہے اور ایسا امریکا نے نائن الیون حملوں کے بعد کیا تھا۔
سوویت یونین کے خلاف طاقت
سوویت یونین نے سن 1955ء میں سات دیگر مشرقی یورپی کمیونسٹ ریاستوں کے ساتھ اپنا فوجی اتحاد بنا کر نیٹو کو جواب دیا، جسے وارسا معاہدہ کہا جاتا ہے۔ لیکن دیوار برلن کے گرنے اور سن1991 میں سوویت یونین کے انہدام نے یورپ میں سرد جنگ کے بعد ایک نئے سکیورٹی آرڈر کی راہ ہموار کی۔ اس طرح سوویت بیڑیوں سے آزاد ہونے والے اور وارسا معاہدے کے کئی سابقہ ممالک مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رکن بن گئے۔
ویشیگراد گروپ کے ارکان ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک نے 1999ء میں شمولیت اختیار کی۔ پانچ سال بعد یعنی سن 2004 میں نیٹو نے بلغاریہ، ایسٹونیا، لیٹویا، لیتھوانیا، رومانیہ، سلوواکیا اور سلووینیا پر مشتمل نام نہاد ولنیئس گروپ کو تسلیم کیا۔ البانیہ اور کروشیا 2009ء میں اس اتحاد کا حصہ بن گئے۔
سب سے حالیہ اضافہ 2017ء میں مونٹی نیگرو اور 2020ء میں شمالی مقدونیہ تھے، جن کے ساتھ ہی اس اتحاد کے رکن ممالک کی کل تعداد 30 ہو چکی ہے۔ تین ممالک کو فی الحال 'خواہش مند ممبران‘ کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے اور یہ ممالک بوسنیا ہرزیگوینا، جارجیا اور یوکرائن ہیں۔
کھلے دروازے والی پالیسی
روس اور یوکرائن کے مابین مشترکہ سرحد پر تناؤ کے تناظر میں اتحاد میں شامل ہونے کے خواہش مند ممالک کی کوششیں ایک مرتبہ پھر تیز ہو گئی ہیں۔ سن 2008ء میں نیٹو کے بخارسٹ سربراہی اجلاس میں اتحاد نے باضابطہ طور پر یوکرائن اور جارجیا دونوں کی رکنیت کی خواہشات کا خیرمقدم کیا تھا لیکن بعدازاں رکنیت کا ایکشن پلان روک دیا گیا تھا۔
روس کے لیے اس کی سابق سوویت ریاست یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کا تصور ایک سرخ لکیر ہے۔ اسی وجہ سے روس متعدد مرتبہ کہہ چکا ہے کہ یوکرائن کو اس اتحاد میں شامل نہ کیا جائے۔
دوسری جانب نیٹو نے آرٹیکل نمبر دس کے تحت یورپی ممالک کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
روب موڈگے ( ا ا / ع س)