نیپال: سیاسی بحران ختم ہونے کا امکان
29 مئی 2010نیپال کی جمہوریہ بننے کے بعد کی اہم ترین تاریخ اٹھائیس مئی تھی کیونکہ اس روز نئے دستور کی تکمیل ہونا ضروری تھی لیکن مسلسل سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا ۔ تاہم حکومت اور اپوزیشن نے آخری وقت میں ایک سمجھوتہ کرکے ملک کو ایک نئے بحران سے بچا لیا ہے۔ اس نئی ڈیل میں وزیراعظم مادوکمار نیپال کا مستعفی ہونا شامل ہے۔
ابتدائی پلان کے مطابق اٹھائیس مئی کو نئے دستور کی منظوری کے بعد دو سالہ کی مدت والی پارلیمنٹ کو تحلیل ہونا تھا اور پھر سے نئے انتخابات کا انعقاد کیا جانا تھا۔ اس پر عمل درآمد اس لئے نہیں ہو سکا تھا کیونکہ مادو کمار نیپال کی حکومت اور ماؤسٹ اراکین پارلیمنٹ کے درمیان سیاسی رسہ کشی جاری تھی۔ تازہ ڈیل کے تحت موجودہ دستور ساز اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی گئی ہے۔ ماؤ پارٹی کے ترجمان دینا ناتھ شرما نے بھی نئی ڈیل کی تصدیق کی ہے۔ دینا ناتھ شرما کا مزید کہنا تھا کہ اب نیپال میں ایک قومی حکومت کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی، جوامن مذکرات اوردوسرے حل طلب معاملات کو ایک منطقی مقام تک پہنچائے گی۔
پارلیمنٹ کی مدت میں توسیع اورنئی حکومت سازی کے نکتے پرماؤ پارٹی نے ووٹ دینے کی حامی تب بھری تھی جب وزیراعظم نے مستعفی ہونے کا مطالبہ تسلیم کیا تھا۔ نیپالی پارلیمنٹ میں ماؤ پارٹی کے پاس سے سب سے زیادہ نشستیں ہیں اور وہ اپوزیشن میں ہے۔ اگرآخری لمحات میں پارلیمنٹ کی مدت میں اضافے کی قرارداد منظور نہ ہوتی تو عبوری دستور کے تحت پارلیمنٹ خود بخود تحلیل ہو جاتی اور نیپال ایک نئے سیاسی بحرانی دور میں داخل ہو جاتا۔
نیپالی پارلیمنٹ کی مدت میں توسیع کی قرارداد جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب منظور کی گئی تھی۔ حکومت اوراپوزیشن میں ہونے والے حکومت سازی کے نئے معاہدے کی تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہیں لیکن فریقین نے اس ڈیل کی تصدیق کردی ہے۔ گزشتہ روز بھی ماؤ پارٹی کے ہزاروں کارکن پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہو کر وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
نیپالی وزیراعظم کے ترجمان بشنو ریجال نے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کی رضامندی کی تصدیق کی ہے۔ ان کے مطابق وزیراعظم ملک کے اندر سیاسی عمل کو آگے لے کر جانے کے سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کے سلسلے کو شروع کریں گے۔ بشنو ریجال کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کچھ معاملات کو کوئی آخری صورت دے کر اپنے منصب سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عدنان اسحاق صدیقی