نیپال، منشیات کی اسمگلنگ کا نیا راستہ
11 مارچ 2012کٹھمنڈو سے ملنے والی رپورٹوں میں جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ نیپالی حکام کو اس وجہ سے بڑی تشویش ہے کہ ہمالیہ کی یہ ریاست منشیات کی غیر قانونی تجارت کے لیے مسلسل اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
ملکی دارالحکومت کٹھمنڈو سے شائع ہونے والے اخبار کٹھمنڈو پوسٹ نے اپنی اتوار کی اشاعت میں لکھا ہے کہ اس منفی تبدیلی کی وجہ ملک کے واحد بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اسمگلنگ کی روک تھام اور سکیورٹی کے ناکافی انتظامات ہیں۔
نیپال میں نارکاٹک ڈرگ کنٹرول لاء انفورسمنٹ یونٹ کے سربراہ ناوا راج سلوال کہتے ہیں کہ بھارت کی طرف سے کئی نئے فلائٹ روٹ کھولے جانے کے بعد منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کی توجہ اب نیپال پر مرکوز ہو گئی ہے۔
ناوا راج سلوال کے مطابق اس کا سبب کٹھمنڈو کے تری بھوون انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر سلامتی اور نگرانی کے انتظامات کی خراب صورت حال ہے۔
نیپال میں انسداد منشیات کے ملکی یونٹ کے سربراہ کا کہنا ہے، '’منشیات کے اسمگلر پہلے افغانستان میں تیار کی جانے والی افیون اور ہیروئن زمینی راستے سے پاکستان اسمگل کرتے ہیں، جہاں سے وہ فضائی راستے سے نیپال پہنچا دی جاتی ہے۔ نیپال سے اسمگلروں کے گروہ اپنے مقامی کارکنوں کے ذریعے یہ منشیات بھارت پہنچا دیتے ہیں جہاں سے وہ سمندری راستے سے دوسرے ملکوں کو بھجوا دی جاتی ہیں۔‘‘
دنیا بھر میں افیون اور سفید ہیروئن کی مجموعی پیداوار کا اسی فیصد سے بھی زائد حصہ صرف افغانستان میں تیار کیا جاتا ہے۔ ان منشیات کی اسمگلنگ کی روک تھام کو ایک بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے نیپالی پولیس نے کہا ہے کہ اس مقصد کے لیے مقامی پولیس فورس کی صلاحیت اور کارکردگی کو بہتر بنایا جانا چاہیے۔
نیپالی دارالحکومت کٹھمنڈو کے ہوائی اڈے اور شہر کے دیگر حصوں سے گزشتہ دو سال کے دوران منشیات کی روک تھام کے قومی محکمے کے اہلکار تیس کلو گرام سے زیادہ افیون اور ہیروئن اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب رہے۔
نیپال میں منشیات کو 1978 میں غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تک یہ ملک مغربی ملکوں کے ہپی سیاحوں کی پسندیدہ منزل تھا جو خاص طور پر منشیات کا کھلا استعمال کرنے کے لیے نیپال کا رخ کرتے تھے۔
رپورٹ: عصمت جبیں / خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس